صنعت تضاد 1
شعر میں ایسے الفاظ لائے جائیں جو معنوی میں ایک دوسرے کی ضد ہو اس کو صنعت طباق بھی کہتے ہیں۔ اگر دو متضاد معنی کے لفظ لائے جائے تو اسے طباق ایجابی کہیں گے
گاہ جیتا ہوں گاہ مرتا ہوں
آنا جانا تیرا قیامت ہے
اس شعر میں "جیتا" "مرتا" اور "آنا "جانا”متضاد لفظ ہیں
اگر حروف نفی کسی کے ساتھ معنی میں تضاد ہو تو اسے طباق سلبی کہتے ہیں۔
صبر کہاں جو تم کو کہیے لگ کے گلے سے سوجاؤ
بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہو جاؤ
میر تقی میر
2 صنعت ایہام
شعر میں ایسا لفظ لایا جائے جو ذو معنی ہو۔ ایک قریبی مفہوم ہو جس کی طرف فوری ذہن منتقل ہو اور دوسرا مفہوم بعید ہو جو غور کرنے پر کھلے ۔ شاعر کا مفہوم بعید ہوتا ہے
ہم سے عبث ہے گمان رنجش خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے
مرزا غالب
غبار کے قریبی معنی دھول ہے معنی بعید رنجش ہے اور یہی شاعر کی مراد ہے ۔
3 صنعت مراعات النظیر
شعر میں ایسے لفظ لائے جائے جو آپس میں مناسبت رکھتے ہوں
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے نا پا ہے رکاب میں
مرزا غالب
رخش، باگ اور رکاب میں مناسبت ہے
4 صنعت تجاہل عارفانہ
کسی بات کو جانتے ہوئے بھی لاعلمی کا اظہار کرنا
صنم سنتے ہیں تیری بھی کمر ہے
کہاں ہے کس طرف کو ہے کدھر ہے
5 صنعت لفظ و نشر
شعر میں پہلے چند چیزوں کا ذکر کیا جائے پھر ان کی مناسبت کو بیان کیا جائے جیسے
تیرے رخسار و قد و چشم کے ہیں عاشق زار
گل جدا، سرو جدا، نرگس بیمار جدا
6 صنعت حسن تعلیل
تعلیل کے معنی ہیں علت یا وجہ بیان کرنا ۔ حسن تعلیل سے مراد ہے کہ کسی چیز یا امر کی حقیقی علت سے توجہ ہٹاکر اس کی کوئی اور علت بیان کی جائے
نکلا ہے لالہ خاک کے نیچے سے سرخ سرخ
رنگیں ہوا شہیدوں کے خون میں نہا نہا
7 صنعت مشاکلہ
دو مختلف چیزوں کا ذکر کیا جائے اور ان میں تشبیہہ ، استعارہ، محاورہ یا روز مرہ کے استمعال سے باہمی ربط ظاہر کیا جائے
میں وہ رونے والا چلا ہوں جہاں سے
جسے ابر ہر سال روتا رہے گا
میر تقی میر
8 صنعت عکس
کلام کے بعض اجزاء کو مقدم و موخر کرکے دوسرا فقرہ یا مصرع بنالیا جائے
ہم ہیں اس کے خیال کی تصویر
جس کی تصویر ہے خیال اپنا
فانی بدایونی
9 صنعت مبالغہ
ٹھہرے نہ سایہ خوف کے مارے بدن کے پاس
10 صنعت تلمیح
کسی مشہور قصے، واقعے یا کردار یا شخصیت کے ذریعے کسی بات کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ تلمیح کے استمعال سے ایک یا چند لفظوں کے ذریعے سارا واقعہ یا قصہ سامنے آجاتا ہے ۔ شعر میں کفایت لفظی اور ایمائیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے
عاشق اس غیرے بلقیس کا ہوں میں آتش
بام تک جس کے کبھی مرغ سلیماں نہ گیا
میں اس محبوبہ کا عاشق ہوں جس کے حسن پر بلقیس کو رشک آئے ۔ مرغ سلیماں یعنی ہدہد جو سلیمان علیہ السلام کا خط بلقیس تک پہنچاتا تھا۔
صنائع لفظی اور صنائع معنوی نہ صرف شعر کی لفظی اور معنوی خوبیوں کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان سے شعر میں ایمائیت کا وصف بھی پیدا ہوتا ہے
0 تبصرے