Ad

غزل ‏کا ‏موضوع ‏عشق ‏حقیقی ‏اور ‏تصوف ‏پر ‏شاعری

عشق مجازی ہے بعد غزل کا خاص موضوع عشق حقیقی اور تصوف ہے ۔ تصوف کے موضوع کے بارے میں کہا گیا ہے کہ " برائے شعر گفتن خوب است " لیکن یہ بات درست نہیں ۔ صوفی شاعروں نے اپنی واردات کا اظہار غزل میں کیاہے اس کے علاوہ فلسفۂ تصوف کی اصطلاحوں میں شاعروں نے حیات و کائنات کے مختلف مسائل کے بارے میں اپنے نظریات اور خیالات کا اظہار کیا ہے:

مختلف مسائل کے بارے میں اپنے نظریات اور خیالا ت کا اظہار کیا ہے

خبر تحیر عشق سن نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو رہا نہ میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
سراج

نا حق  ہم مجوروں پر یہ  تہمت  ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
میر تقی میر

ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں
اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں
میر تقی میر

مہر ہر ذرے میں مجھ کو ہی نظر آتا ہے
تم بھی ٹک دیکھو تو صاحب نظراں ہے کہ نہیں
مرزا رفیع سودا

ارض و سا کہاں ترکی وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
درد

دل ہر قطرہ ہے ساز انا لبحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا
مرزا غالب

حسن پری اک جلوۂ مستانہ ہے اس کا
ہوشیار رہی ہے کہ جو دیوانہ ہے اس کا
آتش

گم جب سے کیے بیش تری جلوه گری نے
کیا کیا نہ خبردار کیا بے خبری نے
جلال لکھنوی

کرتے ہیں سجدے اس لئے  دیر و حرم میں ہم
کیا جانیے وہ شوخ  کہاں ہو کہاں  نہ ہو
تسلیم لکھنوی

واو خود نمائی لے وحدت تمنا سے
آئینہ طلب فرما کژت تماشا سے
فانی بدیوانی

میں تو ان محجوبیوں پر بھی سراپا دید ہوں
اس کے جلوے کی ادا اک شان مستوری بھی ہے
اصغر گونڈوی

فریب دام گہہ رنگ و بو معاذ اللہ
یہ اہتمام ہے اور ایک مشت پر کے لیے
اصغر گونڈوی

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا  تو  خود آشکار  ہو  یا  مجھے آشکار  کر
علامہ اقبال

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے