Ad

فراق گورکھپوری کے حالات زندگی

فراق گورکھپوری کے حالات زندگی

 

گذشتہ اکائی میں ہم نے اردو کے ممتاز غزل گو شاعر شوکت علی خاں فانی کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ۔ حیات اور کائنات کے بارے میں ان کے مخصوص تصورات سے آ گہی حاصل کی اور ان کے فن اور اسلوب کی خصوصیات معلوم کیں ۔ اس اکائی میں ہم اردو کے ایک منفرد غزل گو شاعر فراق گورکھپوری کی حیات اور غزل گوئی کا جائزہ لیں گے ۔ فراق کی چار غزلوں کا مطالعہ کریں گے نمونے کے طور پر دو اشعار کی تشریح پیش کی جاۓ گی ۔ اس اکائی کا خلاصہ دیا جائے گا۔

Raghupati sahay firaq

Firaq gorakhpuri biography in urdu

فراق گورکھپوری کے حالات زندگی

     اردو کے ممتاز غزل گو اور بیسویں صدی کے مقبول و منفرد شاعر رگھوپتی سہائے فراق گورکھپوری 28 اگست 1996 میں گورکھپور کے بانس گاؤس میں پیدا ہوۓ ۔ان کے والد گور کھ پرساد سہائے نامور وکیل تو تھے ہی ایک عمدہ اور کلاسیکی رنگ کے شاعر بھی تھے عبرت تخلص کرتے تھے۔ انھوں نے غزلیں اور نظمیں کہیں ۔ 

ان کا یہ شعر بہت مشہور ہوا:

زمانے کے ہاتھوں سے چار نہیں ہے

زمانہ ہمارا تمھارا نہیں ہے 

لیکن ان کی اصل شہرت " حسن فطرت " نام کی مثنوی سے ہوئی۔ یہ ایک منظوم تمثیلی قصہ ہے جو اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوا۔ فراق کے گھر میں علمی ادبی ماحول تھا۔ والد شہر کے مشہور وکیلوں میں سے تھے ۔ گورکھپور شہر میں لکشمی بھون نام کی کوٹھی تھی جو ان کے دادا کے نام سے منسوب تھی ۔ ہر طرح کی آسائش تھی لیکن فراق عام بچوں سے مختلف تھے ۔ انہیں کھیل کود سے زیادہ دلچسپی نہ تھی۔ ایک خط میں وہ خود لکھتے ہیں۔ 

     " بچپن ہی سے میں نے اپنے آپ کو اپنےبہن بھائیوں سے بہت مختلف پایا۔ مثلاً ان میں سب سے زیادہ جذباتی محبت اور نفرت کی غیر معمولی شدت میں اپنے اندر پاتا تھا ۔ مانوس چیزیں بھی مجھے حد درجہ عجیب محسوس ہوتیں۔ مناظر فطرت سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ انھیں میں کھو جاتا ۔ میرے بچپن کی دوستیاں شدید قسم کی ہوتی تھیں ۔ بچپن کے کھلونوں سے اتنا شدید لگاؤ محسوس کرتا تھا کہ گھر والے تعجب کرتے تھے " (فراق کا خط محمد طفیل کے نام)

     احساس اور جذبات کی سطح پر فراق بچپن سے ہی عجیب و غریب ثابت ہوئے۔ وہ حسن پرست تھے ، اپنے ایک بد صورت ماموں کو وہ مشکل سے سلام کر پاتے ۔ وہ لکھتے ہیں:

     " میری والدہ کا کہنا تھا کہ میں دو تین سال کی عمر ہی سے کسی بد صورت مرد یا عورت کی گود میں جانے سے بھی انکار کر دیتا تھا بلکہ یہاں تک ضد کرتا تھا کہ ایسے لوگ گھر میں نہ آنے پائیں۔ اس کی خوب ہنسی اڑی تھی اور کبھی مجھے اس کے لئے چڑایا بھی جاتا تھا " ( غبار کارواں " ماہنامہ آج کل دسمبر 1970 ء )

 firaq gorakhpuri religion

        اس عہد میں ایک خوش حال کایستھ گھرانے کی جو تہذیب و معاشرت ہوا کرتی تھی وہ فراق کے گھر میں بھی تھی ۔ شراب اور گوشت سے پرہیز نہ تھا۔ فارسی پڑھی پڑھائی جاتی تھی ۔ فراق نے یہ سب پڑھا ساتھ ہی رامائن اور لوک گیتوں کا بھی مطالعہ کیا۔ لوک گیتوں کی دھن فراق کو بہت متاثر کرتی تھی ۔ پندرہ سولہ برس کی عمر تک پہنچے پہنچتے ان میں شعر و شاعری کا اچھا ذوق و شوق پیدا ہو گیا تھا۔ آٹھویں نویں کلاس میں ہی تھے کہ فراق کے پھوپھی زاد بھائی راج کشور لال سحر فراق کے دوست بن گئے ۔ ان کی صحبت میں فراق نے گلز ارنسیم کا مطالعہ کیا ۔ امیر مینائی اور دوسرے شعرا کے بہت سے اشعار انھیں حفظ ہوگئے ۔ فراق کے چچا ہندی کے اچھے ادیب تھے ، والد بھی شاعر ، غرض کہ فراق کا بچپن اور جوانی کا زمانہ خالص شعر و شاعری کے ماحول میں گزرا ۔ اس زمانے میں ہندو اور بالخصوص کایستھ گھرانے میں جلد ہی شادی کر دی جاتی تھی ۔ چنانچہ فراق کی بھی شادی کر دی گئی، اس خیال سے کہ ان کی زندگی کی گاڑی راستے پر آ جائے گی لیکن فراق جیسے حساس اور جمال پرست انسان کی زندگی میں شادی ایک بڑا حادثہ بن گئی ۔ ان کی بیوی معمولی شکل و صورت کی تھیں اور فراق کے بیان کے مطابق دھوکا دے کر ان کی شادی کردی تھی ۔ اس سے ان کو بڑ اصدمہ پہنچا۔ اپنی بیوی کے بارے میں فراق لکھتے ہیں: 

     " اٹھارہ 18 سال کی عمر میں میری شادی کر دی گئی ۔ میری بیوی کی شکل بالکل وہی تھی اس سے بھی گئی گزری، جو ان لوگوں کی تھی جن کی گود میں جانے سے میں انکار کردیا کرتا تھا ۔ میری شادی نے میری زندگی کو ایک زندہ موت بنا کر رکھ دیا "


     فراق کی زندگی کا دوسرا بڑا حادثہ ان کے والد کی موت تھی ۔ ابھی وہ بی ۔اے میں تھے کہ ان کے والد شدید بیمار ہوئے ۔ تبدیلی آب و ہوا کے لیے انھیں دہرہ دون لے جانا پڑا ۔ 17 جون 1918 ء کوان کی آخری ہچکی آئی اور روح پرواز کرگئی ۔ فراق نے یہ چار مصرعے والد کی موت پر کہے:

غفلت کا حجاب کوہ و دریا سے اٹھا 

پردۂ فطرت کے روئے زیبا سے اٹھا

پو پوٹھنے کا سماں سہانا ہے بہت

پچھلے کو فراق کون دنیا سے اٹھا


فراق گورکھپوری ابتدائی تعلیم

     ابتدائی تعلیم گورکھپور میں مکمل کرنے کے بعد وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے الہ آباد یونیورسٹی سے بی ۔ اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ۔ اس درمیان انھیں سنگرہنی کا مرض لاحق ہو گیا اور نیند آنکھوں سے غائب ہوگئی ۔ 1918 میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی ۔ اے کیا۔ والد کے انتقال کی وجہ سے ان کی مالی حالات بھی بگڑ تے گئے ، یہاں تک کہ ان کو اپنا آبائی مکان لکشمی بھون فروخت کرنا پڑا۔ اسی سال ان کا نام ڈپٹی کلکٹری کے لیے نامزد ہوا۔ اس سے قبل کہ انگریز سرکار کی ملازمت اختیار کرتے وہ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کے اثر میں آ گئے ۔ گورکھپور اور الہ آباد کے متعدد جلسوں میں ان کی تقریریں سن سن کر ان کا ذہن بدل گیا اور وہ سیاست کی طرف آ گئے جس کا اس وقت واحد مقصد حصول آزادی تھا۔ فراق باقاعدہ کانگریس پارٹی میں شریک ہوگئے، سیکریٹری ہوئے اور بعد میں جیل بھی گئے ۔ حسرت موہانی ، رفیع احمد قدوائی اور دوسرے سیاسی رہنماؤں سے قربت ہوئی ۔ جیل میں مشاعرے ہوتے۔ کئی غزلیں فراق نے جیل میں کہیں۔ ایک غزل کا مقطع بہت مشہور ہوا :

اہل زنداں کی یہ محفل ہے ثبوت اس کا فراق

کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا


فراق اور کانگریس پارٹی

     جیل کی زندگی نے فراق کی نفسیات کو متاثر کیا۔ بعد میں وہ سیاست سے بیزار بھی ہوئے ۔ فراق کی پرواز فکر ، شاعرانہ سوچ ، سیاسی رویوں سے زیادہ دیر تک ہم آہنگ نہ رہ پائی ۔ یہاں تک کہ وہ گاندھی جی کے افکار و خیالات سے بھی بیزار ہونے لگے ۔ ایک جگہ کہتے ہیں:


" مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی جی نہ علوم کی اہمیت سمجھتے ہیں نہ مغرب کے ان اداروں کی اہمیت سمجھتے ہیں جن کو اپنائے بغیر ایشیا و افریقہ کا کوئی مستقبل ہو ہی نہیں سکتا۔"

      البتہ وہ نہرو کی تعریف کرتے ، ان کے رچے ہوئے تہذیبی شعور کے دل دادہ تھے ۔ بعد میں فراق نے آ گرہ یونیورسٹی سے 1930 ء میں انگریزی سے ایم ۔اے کیا اور الہ آباد ہی میں استاد مقرر ہوگئے جس سے فراق کی زندگی کو ایک راہ مل گئی' وہ راہ جو فراق کے لیے سب سے مناسب تھی ۔ اس ملازمت سے انھیں یک گونہ سکون ضرور ملا۔ جیل کی زندگی کے شب و روز، عملی سیاست سے وابستگی ، گاندھی، نہرو ، حسرت ، محمد علی اور بعض دوسرے سیاسی اکابر کی قربت ان سب سے بالعموم اور نہرو کی علمی و ادبی شخصیت نے بالخصوص ان کے شعور کی آنکھیں کھول دیں ۔ حیات و کائنات کے افہام و تفہیم کے عالمی معیار ان کی دسترس میں آئے جس نے ان کی شاعرانہ و دانشورانہ شخصیت کو مستحکم اور تہہ دار تو کیا ، ان کے تخیل و وجدان کو ایک نئی بصیرت و آگہی سے بھی مالا مال کیا ۔ انھوں نے شاعری کو سیاسی اور عالمی حوالوں سے سمجھنا اور پیش کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح فراق ایک بڑی شاعری ہی نہیں عظیم دانشوری کی راہ پر چل پڑے۔ اگر وہ معمولی انسان ہوتے' دنیا دار ہو تے تو سیاست سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے اور جلد ہی دامن جھٹک کر الگ ہوگئے ۔ مجنوں گورکھپوری نے لکھا ہے: 

     " رگھوپتی شاعر کے علاوہ بہت کچھ ہو سکتے تھے اور بہت کچھ ہیں ۔ اگر وہ چاہتے تو اپنی تمام شرافتوں اور صداقتوں کو قربان کر کے بہت کچھ حاصل کر سکتے تھے ۔ انھوں نے ظاہری جاہ و ثروت اور ملی مفاد کی اتنی پروا نہیں کی جنتی دنیا داروں کے درمیان اپنی عزت اور ساکھ قائم کرنے کے لیے کرنا چاہیے۔"


     یہ ان کے اندر کا فطری شاعر اور فن کار تھا جس کی نگاہ مادی آسائشوں سے زیادہ روحانی مسرتوں کی طرف تھی ۔ اس نے سیاست کا دامن زندہ رہنے کے لئے ضرور تھاما ۔ اس کے اندر کی حمایت و حریت نے ابتدا گاندھی کو ہیرو بنا دیا لیکن جب وہ سیاست کے ہمہ گیر پہلوؤں پر غور کرنے لگے تو انہیں نہرو پسند آنے لگے ۔ پھر جلدی ہی انھوں نے سیاست سے کنارہ کشی کرلی لیکن یہ کنارہ کشی جسمانی تھی ذہنی نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1935 ء میں سجاد ظہیر لندن سے واپس آئے اور ایک خاص سیاسی و اشتراکی نقطۂ نظر کے ساتھ الہ آباد میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالنی چاہی تو جن لوگوں نے سجاد ظہیر کا سب سے زیادہ کھل کر ساتھ دیا ان میں اعجاز حسین اور احمد علی کے ساتھ فراق پیش پیش تھے ۔ فراق نے پہلی کانفرنس میں مقالہ بھی پڑھا۔ 1947 ء میں دہلی کانفرنس کی صدارت بھی کی اور عمدہ تقریر کی ۔اسی کے آس پاس فرقہ پرستی کے خلاف ان کی ایک طویل تقریر مقالے کی شکل میں " ہمارا سب سے بڑا دشمن " شائع ہوئی 1954 ء میں بستی کی کانفرنس میں ان کی تقریر ، 1956 ء میں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس میں یادگار تقریر کے علاو 1970 ء اور 1973ء کے جلسوں کی تقریروں میں وہ شاعر فلسفی کم صوفی زیادہ نظرآ نے لگے ۔ ' من آنم ' کے خطوط میں انھوں نے حیات و کائنات کا فلسفہ نچوڑ کر رکھ دیا ۔ فراق 1959 ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد فراق تقریبا بائیس تئیس سال زندہ رہے اور ایک طویل علالت کے بعد 1982 میں ان کا انتقال ہوا۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے