Ad

فراق گورکھپوری کی غزل گوئی

 

فراق گورکھپوری کی غزل گوئی


فراق گورکھپوری کی غزل گوئی

Firaq gorakhpuri ghazal 

جیسا کہ عرض کیا گیا کہ فراق کو شعر و شاعری سے لگاؤ بچپن ہی سے تھا۔ ابتدا انھوں نے وسیم خیرآبادی (امیر مینائی کے شاگرد اور استاد شاعر تھے ) سے اصلاح لی ۔ اس کے بعد ریاض خیر آبادی سے بھی مشورۂ سخن کیا۔ ان کی ابتدائی غزلوں میں حسن و عشق کا روایتی رنگ تھا جیسے:

تری محفل میں میرا اور انداز بیاں ہوگا 

جڑھیں گے پھول منہ سے اور ہجوم بلبلاں ہوگا


     جب تک ان کا مطالعہ داغ ، امیر ، اسیر کی شاعری تک محدود رہا وہ روایت سے الگ نہ ہو سکے ۔ جب انھوں نے دیگر شعرا خصوصا میر اور غالب کے علاو ہندی، انگریزی کے شعرا کے کلام اور دیگر علوم کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ان کی فکر میں گہرائی اور اسلوب میں انفرادیت پیدا ہوتی گئی ۔ ان کا حسن پرستانہ مزاج، تجس و تحیر میں رچ بس کر حسن و عشق کی عجیب و غریب دنیا میں انگڑائی لینے لگا۔ ہندوستانی تہذیب اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے نے ان کو فکر و خیال کی ایک ایسی تخلیقی دنیا میں پہنچا دیا جہاں ذاتی بدصورتی ، زندگی کی بدصورتی اور ذاتی عشق ، دنیا کے عشق میں تبدیل ہو گیا ۔ فراق کا المیہ ان کے اپنے عہد کے دکھ سکھ میں شریک ہو کر ان کی غزل کے فکری لہجے میں ایسی جگہ پا تا ہے جہاں صرف اظہار نہیں ہے بلکہ تجزیہ ہے، فکر و فلسفہ ہے اوران کے قلم سے اس قسم کے اشعار جنم لینے گے:

عمر فراق نے یوں ہی بسر کی 

کچھ غم دوراں کچھ غم جاناں


موت کا بھی علاج ہے لیکن

زندگی کا کوئی علاج نہیں


اس دور میں زندگی بشر کی

بیمار کی رات ہوگئی ہے

     فراق کی غزلیہ شاعری میں حسن و عشق کے اور شب غم یا تیرگیِ شب کا تصور نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ اردو کی غزلیہ شاعری میں معاملاتِ حسن و عشق مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فراق نے بھی کہا تھا :

جذبۂ عشق یقیناً پرانا ہے لیکن معاملات عشق یا طریقۂ عشق ہمیشہ نیا نیا سا رہا ہے۔ فراق کا شعر ہے :

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر بھی


     فلسفۂ خود آگہی اور فنا و بقا سے عشق کے رشتے ناطے تو اردو شاعری میں ازل سے ہی ملتے ہیں لیکن جسم و جنس کو احساس و ادراک اور فکر و فلسفے کا حصہ بنا کر محبوب سے جسمانی روابط کو غزل کے پیمانے پر اتارنے کا سہرا عام طور پر فراق کو دیا جاتا ہے ۔ جسم کس طرح کا ئنات بنتا ہے اور عشق کس طرح عشق انسانی میں تبدیل ہوتا ہے اور کس طرح حیات و کائنات سے رشتے استوار کرتا ہے یہ سب کچھ فراق کی فکر اور شاعری میں واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ ہر چند کہ فراق سے قبل حسرت موہانی نے بھی مجازی اور ارضی عشق کو غزل کا موضوع بنایا تھا لیکن فراق نے اسے جمالیاتی جہت دی ۔ وہ اپنی کتاب " اردو کی عشقیہ شاعری" اور اپنے خطوط کی کتاب ’’من آ نم‘‘ میں اپنے تصور حسن و عشق کی وضاحت کر تے ہیں ۔ لیکن غزلیہ شاعری میں ان کا بیان اور حسن بیان ایک اور ہی دنیا میں لے جاتا ہے۔ چند شعر دیکھیے :

Firaq gorakhpuri poetry 

فراق گورکھپوری شاعری

ذرا وصال(ملاقات) کے بعد آئینہ تو دیکھ اے دوست

ترے جمال کی دوشیزگی، نکھر آئی


مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ سب مجھ سے تری رنجشِ بے جا بھی نہیں


اس کا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں

لیتی ہو جیسے سانس عناصر کی کائنات 


بہت دنوں میں، محبت کو، یہ ہوا معلوم 

جو تیرے، ہجر میں گزری، وہ رات رات ہوئی


عشق کی آگ ہے وہ آتشِ خود سوز فراق 

کہ جلا بھی نہ سکوں اور بجھا بھی نہ سکوں


ایک مدت سے، تری یاد بھی، آئی نہ ہمیں 

اور ہم ! بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں


میں آسمان محبت پہ رخصت شب ہوں

ترا خیال کوئی ڈوبتا ستارہ تھا 

      ان اشعار کو صرف لب و رخسار کی شاعری کہنا مشکل ہے ۔ ان میں عاشقانہ جذبے کے ساتھ عصریت اور ابدیت کے بعض ایسے عناصر جھلکتے نظر آئیں گے جو فراق کی گہری سوچ اور فکر کا حصہ ہیں ۔ ان کا تصور عشق ان کے شعور و وجدان اور ان کے ادراک و آ گہی کا حصہ ہے ۔ فراق نے اپنی ابتدائی زندگی میں خوب دکھ جھیلے لیکن علم و ادب سے لگاؤ کچھ ایسا تھا کہ کبھی ہمت نہیں ہاری ۔ کئی حادثات کے شکار ہوئے لیکن انسان دوستی کے جذبات نے ہمیشہ کامیابی حاصل کی ۔ ایک خط میں لکھتے ہیں: 

 مشکل حالات میں میں نے شاعری شروع کی اور آہستہ آہستہ اپنی آواز کو پانے لگا ۔ میرا داخلی موڈ اور خارجی ماحول تو بچین ہی سے بن گئے تھے۔ اب جب شاعری شروع کی تو میری کوشش یہ ہوئی کہ اپنی ناکامیوں اور اپنے زخمی خلوص کے لیے اشعار کے مرہم تیار کروں ۔ میری زندگی جتنی تلخ ہو چکی تھی اتنے میں پر سکون اور حیات افزا اشعار کہنا 

چاہتا تھا۔

UPSC exam , net exam urdu material

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے