فراق گورکھپوری کی عشقیہ شاعری
عشق اپنی راہ پالے تو دنیا فتح ہو جاتی ہے ۔ فراق کا عشق ، انسان کا عشق تھا ۔ ایسا عشق جو دل و دماغ میں ستاروں کی چمک اور سوز و گداز پیدا کردے۔ جس وقت فراق نے شاعری کا آغاز کیا ، داغ و امیر کا چراغ گل ہو رہا تھا۔ پوری دنیا میں شاعری کی ایک نئی بساط بچھ رہی تھی ۔ قومی زندگی ایک نئے رنگ میں ڈھل رہی تھی ۔ اشتراکیت کا بول بالا تھا۔ فراق ، اشتراکیت سے متاثر ہوئے ، ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے۔خود اعتراف کرتے ہیں " 1936 ء کے بعد سے اشتراکی فلسفے نے میرے عشقیہ شعور اور میری عشقیہ شاعری کو نئی وسعتیں اور نئی معنویت عطا کی ۔" اب ذرا ان اشعار کو دیکھیے جن میں عشق کا بدلا ہوا ، سنبھلا ہوا اور زندگی سے وابستہ عکس دکھائی دیتا ہے :
تو ایک تھا، میرے اشعار میں، ہزار ہوا
اس اک چراغ سے، کتنے چراغ جل اٹھے
فراق ایک ہوئے جاتے ہیں، زمان و مکاں
تلاشِ دوست میں ، میں بھی کہاں نکل گیا
زندگی کو بھی منہ دکھانا ہے
رو چکے تیرے بے قرار بہت
حاصل حسن و عشق بس ہے یہی
آدمی آدمی کو پہچانے
اردو عشقیہ شاعری
اگر کوئی یہ سمجھے کہ فراق کا عشق محض فراق کی اپنی افتاد طبع، اپنے حادثات و تجربات کی بنیاد پر کھڑا ہے تو یہ بات پورے طور پر سچ نہ ہوگی۔ فراق کا عشق ان کی اپنی جنس زدگی کے باطن سے پھوٹتا ہے لیکن جلد ہی ان کا انسانی و اخلاقی شعور زمانہ اور وارداتِ زمانہ سے فطری رشتے جوڑتا ہوا بدلتی ہوئی اور دھڑکتی ہوئی انسانی تہذیب اور انسانیت کی تحریم کے قوس قزح میں ایک دلکش اور متاثر کن رنگ بھر کر ابھرتا ہے ۔ پروفیسر ممتاز حسین نے لکھا ہے۔
” فراق گورکھپوری 20 ویں صدی میں اردو کی تاریخ میں ان گنے چنے شعراء میں سے تھے جنھوں نے اردو شاعری کے رخ کو اسکے عشقیہ شاعری سے ایک نئی شاعری کی طرف موڑ دیا جو حیات آفریں اور سماجی زندگی کو منقلب کرنے والی ہے ۔‘‘ (فراق اور فراق کی شاعری )
اردو شاعری میں وارداتِ عشق و محبت اور معاملات قلب و جگر کے حوالے سے رات اور شب کا طرح طرح سے ذکر ہوتا رہتا ہے۔ فراق کی شاعری میں یہ سب کچھ موجود ہے لیکن فراق کی زندگی، سنگرہنی کا مرض ، زود حسی ، شبِ بیداری نے رات کو جس طرح اپنے جسم و جاں اور فکر و خیال کا حصہ بنایا اس نے شاعری کی سطح پر عجیب و غریب رنگ اختیار کیے ۔ رات کو جاگنا اور گئی رات تک غزلیں کہتے رہنا ان کی زندگی کا محبوب مشغلہ بن گیا ۔ ایک جگہ وہ خود کہتے ہیں :
اجلے اجلے سے کفن میں سحر و شام فراق
ایک تصویر ہوں میں، رات کے کٹ جانے کی
بقول مجنوں گورکھپوری ’’رات کیسے کٹے؟‘‘ ان کے لیے بڑا مسئلہ تھا اور تنہائی کی لمبی راتیں کاٹنے کے لیے شعر کہنے سے بہتر کوئی صورت نہیں ہوسکتی اسی لیے انھوں نے غزل کا ساز اٹھایا اور کہہ اٹھے۔
غزل کے ساز اٹھاؤ، بڑی اداس ہے رات
نوائے میر سناؤ بڑی اداس ہے رات
نغمۂ جلوۂ رخ گاؤ کہ کچھ رات کٹے
شعلۂ عشق کو بھڑکاؤ ، کہ کچھ رات کٹے
رات سے متعلق کچھ عمد واشعار ملاحظہ ہوں:
افق سے تا افق یہ کائنات محو خواب تھی
نہ پو چھ دے گئے ہیں کیا مجھے وہ لمحے رات کے
طبیعت، اپنی گھبراتی ہے، جب سنسان راتوں میں
ہم ایسے میں، تری یادوں کی چادر، تان لیتے ہیں
،رات چلی ہے جوگن بن کر، بال سنوارے لٹ چھٹکائے
چھپے فراق گگن میں تارے ، دیپ بجھے ، ہم بھی سو جائیں
خنک سیہہ مہکے ہوئے ساے پھیل جاتے ہیں جل تھل پر
کن جتنوں میری غزلیں رات کا جوڑا کھولے ہیں
فراق کی جمالیاتی شاعری
فراق نے بیداری شب اور فسون شب کو صرف معشوق کے انتظار میں اور مناظر قدرت کی پیش کشی تک محدود نہیں رکھا بلکہ رات کی تاریکی میں نھوں نے حیات افزا روشنی بھی دیکھی ہے ۔ زندگی کی تھکن اور پھر دوبارہ تھکنے کے لیے اس کی تیاریاں ، رات کے پردے میں نہاں زندگی کے آثار ، گناہوں کا احساس و اعتراف ، تاریکی شب میں ابھرتے ہوئے زندگی کے روشن حقائق اور پھر اس میں شاعر کا غرق ہو جانا ، اپنے آپ کو پا لینا ، ان ساری باطنی و روحانی کیفیتوں کوفراق نے اپنی غزل میں ابھارا:
اب دور آسماں ہے، نہ دور حیات ہے
اے دردِ ہجر، تو ہی بتا، کتنی رات ہے
ہر زرے پر اب کیفیتِ نیم شبی ہے
سے ساقیِ دوراں یہ گناہوں کی گھڑی ہے
یہ سناٹا ہے میرے پاؤں کی چاپ
فراق اپنی کچھ آہٹ پا رہا ہوں
روشنی میں فراق کی زندگی کس طرح کٹی ، اہل ادب کم وبیش واقف ہیں لیکن رات کی تنہائی میں گزرنے والے لمحات سے وہ لوگ بھی واقف نہ ہو پائے جو ان کے قریب تھے ۔ ایسی راتوں میں ساتھ دینے والا زندگی کا شریک ان کے احساس میں کانٹھے چبھو گیا لیکن دنیائے شاعری میں یہ خار بڑا کام کر گیا۔
رات کی تمام صورتیں ، کیفیتیں ، اشاریت و رمزیت جو فراق کے یہاں ملتی ہے وہ اردو کے قدیم شاعروں کے یہاں نظر آتی ہیں اور نہ معاصرین میں۔ فراق کی یہ اپنی انفرادی دنیا ہے جو سورج کی شعاعوں سے نہیں بلکہ چاند کی روشنی اور شام کی اداسی سے شروع ہوتی ہے اور رات گئے جوان ہوتی ہے۔ راتوں نے فراق ، پھر فراق نے راتوں کو دن بنا دیا۔
تاریکیاں چمک گئیں آواز درد سے
میری غزل سے رات کی زلفیں سنور گئیں
چھڑتے ہی غزل، بڑھتے چلے رات کے سائے
آواز میری گیسوئے شب کھول رہی ہے
فراق انگریزی کے پروفیسر تھے۔ انگریزی کی رومانی شاعری کے دل دادہ تھے۔ اس کے باوجود ہندوستانی تہذیب کے بھی پر وردہ اور تربیت یافتہ تھے۔ معاشرت اور ادب کے مطالعے اور مشاہدے اور پھر ان کی ذاتی سوچ نے زندگی سے متعلق جو عرفان ان کو دیا ، کہیں کہیں اس نے ان کی شاعری کو عارفانہ اور فلسفیانہ رخ دے دیا ہے۔ جب زندگی میں فلسفہ ، تخیل اور تصور کا لازمی جز بن جائے اور طرز حیات ہی نہیں تخلیقی کائنات میں رچ بس جائے تو پھر اس طرح کے شعر ہوتے ہیں :
زندگی کیا ہے آج اسے اے دوست
سوچ لیں اور اداس ہو جائیں
اس دور میں زندگی بشر کی
بیمار کی رات ہوگئی ہے
جولاں گہہ حیات کہیں ختم ہی نہیں
منزل نہ کر حدود سے دنیا بنی نہیں
یہی مقصد حیات عشق کا ہے
زندگی زندگی کو پہچانے
0 تبصرے