مجروح سلطانپوری کے حالات زندگی
Majrooh sultanpuri biography
مجروح سلطان پوری اردو کے ترقی پسند غزل گو شاعر تھے۔ مجروح سے پہلے ترقی پسند تحریک نے غزل کو ایک روایتی اور قدامت پسند صنف قرار دیا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس صنف میں ترقی پسند نظریات کو پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔ مجروح بمبئی پہنچنے کے بعد انجمن ترقی پسند مصنفین سے وابستہ ہوۓ اور انھوں نے اپنی غزلیہ شاعری سے یہ ثابت کیا کہ غزل رجعت پسند صنف سخن نہیں ہے ۔ اس صنف میں بھی سیاسی خیالات اور انقلابی جذبات کو پیش کرنے کی گنجائش ہے ۔ مجروح نے اردو غزل کو ایک نیا رنگ و آہنگ بخشا۔ اردو غزل کی قدیم لفظیات اور استعاروں کو نئے معنی دیے ۔ اس اکائی میں ہم مجروح سلطان پوری کے حالات زندگی کا مطالعہ کریں گے اوران کی غزل گوئی کی منفرد خصوصیات کا جائزہ لیں گے ۔
ترقی پسند شاعر
اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر مجروح سلطان پوری کا اصل نام اسرار حسن خاں تھا۔ وہ 1921 ء میں سلطان پور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد پولیس کے محکمے میں ملازم تھے۔ اچھا خاندان تھا اور اچھی ملازمت چنانچہ مجروح کا بچپن آرام و آسائش میں گزرا۔ والد سرکاری ملازم ضرور تھے لیکن ان کے اندر وطن دوستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ 1921 ء میں رونما ہونے والی خلافت تحریک سے وہ اس قد رمتاثر ہوئے کہ انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے بیٹے کو انگریزی تعلیم نہیں دلوائیں گے ۔ چنانچہ مجروح کی ابتدائی تعلیم گھر میں اردو ، عربی اور فارسی سے ہوئی ۔ 1928ء میں والد کا تبادلہ ٹانڈہ (فیض آباد) ہوگیا۔ وہاں مجروح کا داخلہ ایک مدرڈے میں کرا دیا گیا تا کہ درس نظامیہ کی تعلیم مکمل ہو سکے ۔ ابھی اس مدرسے میں تعلیم چل رہی تھی کہ مدرسے کی سختیوں کو لے کر ایک حادثہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ مدرسے سے نکال دیے گئے اس واقعے کو مجروح کی زبانی سنیے:
" مدرسہ کا ماحول عجیب تھا ۔ ٹخنے سے نیچے پاجامہ نہیں ہونا چاہیے ۔ کھیل کود ، ہاکی وغیرہ کھیل کھیلنے کی ممانعت ، کسی سے مذاق جائز نہیں ۔ میں نے کسی لڑکے سے یوں ہی مذاق کیا تو اس نے مولوی صاحب سے شکایت کر دی اور مولوی صاحب نے بیت سنبھالا اور گرج دار آواز میں کہا ’’ کون مذاق کر رہا ہے ۔‘‘ میں نے کہا کچھ نہیں مولوی صاحب میں نے یوں ہی ہنسی مذاق کر لیا تو اس میں برائی کیا ہے، اس پر انھوں نے بیت اٹھالی ۔ اس کے بعد کیا ہوا اسے جانے دیے. نتیجے میں مجھے مدرسے سے خارج کر دیا گیا ۔‘‘
اس کے بعد مجروح لکھنو آگئے ۔ انھوں نے طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا اور دو سال میں طب کی تعلیم مکمل کرلی ۔ یہاں مجروح نے اپنی ذہانت کا ثبوت پیش کیا اور اپنے بزرگوں اور استادوں کو متاثر کیا۔ اسی زمانے میں شعر و شاعری کا بھی شوق ہوا اور ابتداً مزاحیہ رنگ کے شعر کہے جو پسند کیے گئے اور وہ مشاعروں میں بلائے جانے لگے ۔ حکمت کی سند پانے کے بعد وہ واپس ٹانڈ آئے اور با قاعدہ پریکٹس شروع کر دی ۔ حکمت اور شاعری دونوں پروان چڑھنے لگے ۔ شاعری کا رنگ مزاحیہ ہوتا یا مدحِ صحابہ ۔ لیکن مجروح کا کہنا ہے کہ یہ ان کی شاعری کی ابتدائی شکلیں ہیں جنھیں انھوں نے زیادہ سنجید گی سے نہیں لیا۔
Majrooh sultanpuri mushayira
انھیں دنوں مجروح ایک عشق میں گرفتار ہوئے اور بات اتنی بڑھی کہ سنہیں ٹانڈہ چھوڑ نا پڑا اور وہ سلطان پور واپس آ گئے ۔ سلطان پور میں پریکٹس تو چلی نہیں البتہ شاعری چل پڑی۔ ہوا یوں کہ اس شہر میں پابندی سے شعری نشستیں ہوتی تھیں ، مجروح ان میں شریک ہوتے ۔ پہلے مجروح کی آواز کا جادو رنگ لانے لگا اس کے بعد جب داد بھی ملنے گی تو وہ شاعری کی طرف سنجیدہ ہونے لگے اور جب ابتدائی دور کی غزل کا یہ شعر ایک مشاعرہ میں بہت پسند کیا گیا :
ہم ہیں کعبہ ، ہم ہیں بت خانہ ، ہمیں ہیں کائنات
ہو سکے تو، خود کو بھی اک بار، سجدہ کیجیے
تو ان کی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ ایک مشاعرے کا ذکر مجروح کی زبانی سنیے :
" مجھے اچھی طرح یاد ہے 1941ء میں ہر دوئی کے ایک مشاعرے میں غزل پڑھ رہا تھا جس کی صدارت حضرت ثاقب لکھنوی فرما رہے تھے۔ اس زمانے میں مشاعرے کی ایک تہذیب تھی۔ تمام لوگ دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے۔ ثاقب بھی اسی طرح بیٹھے تھے لیکن جب میں نے یہ شعر پڑھا :
وہ بعدِ عرضِ مطلب پائے رے شوقِ جواب اپنا
کہ وہ خاموش تھے اور کتنی آوازیں سنی میں نے
تو وہ یہ کہتے ہوئے اچھل پڑے " واہ صاحب زادے واہ "
بہ حیثیت شاعر بیٹے کی شہرت دیکھ کر والد کو حیرت ہوئی اور جذباتی ہو کر کہا " بیٹا میں نے تم پر اپنے سارے حقوق معاف کر دیے۔ "
اب مجروح کے لیے راستے صاف تھے۔ انھوں نے مکمل طور پر طبابت کا خیال ترک کر کے پوری توجہ شعر و شاعری پر دی اور کثرت سے مشاعروں میں شریک ہونے لگے اور اس کو ذریعۂ معاش بنالیا۔ اپنی انفرادیت کو مستحکم کرنے کے لیے انھوں نے قدیم شاعروں کو پڑھنا شروع کیا ۔ ساتھ ہی ایک استاد شاعر آسی الدنی سے اپنا کلام بغرض اصلاح دکھایا لیکن جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہوگیا ۔ مشاعروں کے سلسلے میں ایک بار ان کا گزر علی گڑھ بھی ہوا۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں بہ حیثیت استاد و دانشور پروفیسر رشید احمد صدیقی کا طوطی بولتا تھا۔ انہوں نے پروفیسر صدیقی سے ملاقات کرنی چاہی لیکن ممکن نہ ہوسکا۔ ایک رقعہ لکھ کر اندر بھجوایا۔ " ملاقات کا کوئی اور مقصد نہ تھا آپ لوگوں سے ملنا ایک سعادت ہے اور وہ سعادت حاصل کر نے کے لیے حاضر ہوا تھا۔‘‘ رشید صاحب نے فورابلوایا۔ ملاقات کی ۔ کلام سنا اور خوب داد دی اور ہدایت کی کہ خوب مطالعہ کیجئے ۔ سلطان پور میں کوئی اچھا کتب خانہ نہ تھا اس لیے رشید صاحب نے از راہِ عنایت مجروح کو علی گڑھ بلوالیا جہاں ان کا رشید صاحب کے ساتھ تین سال قیام رہا ۔ علی گڑھ میں رشید صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے تین سال مجروح کی ذاتی اور تخلیقی دنیا میں بے حد اہمیت رکھتے ہیں ۔ مجروح لکھتے ہیں:
" میں رشید احمد صدیقی صاحب کے یہاں تین سال رہا ۔ رشید صاحب کے گھر آنے والوں میں معین جذبی ، ذاکر حسین ، حسرت موہانی ، مجیب صاحب ، عابد حسین وغیرہ تھے جو اکثر میرا کلام سنتے تھے ۔ اس وقت تک میں مشاعروں میں چھا چکا تھس۔ میں نے سوچا کہ یہ مشاعروں کی داد بے معنی ہے۔ پس میرے ذہن میں خیال آیا کہ جو بھی کہوں گا دل کی گہرائیوں سے کہوں اس سے قطعِ نظر کہ وہ اشعار لوگوں پر کیا تاثرات چھوڑتے ہیں اور لوگ اس پر داد دیتے ہیں یا نہیں ۔ میری اچھی غزلیں زیادہ تر علی گڑھ کے زمانے کی ہیں۔ "
( ندیم صدیقی " انٹرویو " چراغ۔ مجروح سلطانپوری نمبر صفحہ 405 )
رشید صاحب کے توسط سے ہی جگر مرادآبادی سے ربط ضبط بڑھا۔ اس زمانے میں شعر و شاعری کی دنیا پر چھائے ہوئے تھے۔ جگر نے مجروح کے یہاں چنگاری دیکھ کر ان کی معاونت و رہنمائی فرمائی ۔ وو اپنے ساتھ نہ صرف مشاعروں میں لے جاتے بلکہ شاعری کی نوک پلک درست کرتے زبان و بیان پر بھی تبادلہ خیال کر تے رہتے ۔ 1945 ء میں جگر کے ساتھ ہی انھیں بمبئی کے ایک مشاعرے میں شریک ہونے کا اتفاق ہوا۔ بس اس سفر اور اس مشاعرے نے ان کی زندگی ہی بدل کر رکھ دی ۔ بمبئی میں اقبال ڈے کے موقع پر پنجاب مسلم اسوسی ایشن کی جانب سے ہر سال بڑے پیمانے پر ہونے والے مشاعرے میں پہلی بار مجروح ، جگر کے ساتھ شریک ہوئے اور اپنے عمدہ کلام اور مترنم آواز کی وجہ سے خاصے کامیاب رہے ۔ اس مشاعرے میں مشہور فلم ساز کار اے - آر - کاردار بھی موجود تھے ۔ وہ مجروح کے کلام اور انداز سے متاثر ہوئے ۔ ان دنوں وہ اپنی فلم " شاہ جہاں " بنا رہے تھے ۔ اے - آر - کاردار صاحب نے مجروح سلطانپوری کو بہ حیثیت نغمہ نگار ملازم رکھ لیا اور وہ وہیں کے ہو گئے۔ شاہ جہاں فلم کا نغمہ "غم دیے مستقل " بہت ہٹ ہوا۔ جس کی وجہ سے انھیں اور فلمیں ملنے لگیں
1945 ء کے آس پاس بمبئی ترقی پسند ادیبوں ، شاعروں کی آماج گاہ تھا۔ سردار ، کیفی، ساحر ، منٹو ، کرشن ، اشک ، بیدی سبھی موجود تھے ۔ کمیونسٹ پارٹی کازور تھا۔ اسی سال و ترقی پسند تحریک سے تو وابستہ ہوئے ہی با قاعد ہ پارٹی کے ممبر بھی ہو گئے ۔ ان دونوں وابستگیوں نے مجروح کی ذہنی اور فکری دنیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ دوسرے ترقی پسندوں نے دیکھا کہ یہ تو محض غزل گو ہے تو انھیں قبول کرنے میں ہچکچائے اس لیے کہ ترقی پسند خیالات کے اظہار کے لیے غزل کو موزوں نہیں سمجھتے تھے ۔ مجروح نے اس کو چیلینج کی طرح قبول کیا ۔ مجروح نے غزل میں سیاسی رنگ کے شعر کہنے شروع کیے اور جب اس طرح کے شعر کہے :
،میں اکیلا ہی چلا تھا، جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے، اور کارواں بنتا گیا
،دیکھ زنداں سے پرے، رنگِ چمن، جوشِ بہار
رقص کرنا ہے تو پھر، پاؤں کی زنجیر، نہ دیکھ
،مجھے سہل ہوگئیں منزلیں، وہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
،ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا، کہ چراغ راہ میں جل گئے
تو مجروح کی دھوم مچ گئی اور وہ ترقی پسند تحریک میں ہاتھوں ہاتھ لیے جانے لگے۔ اس کے بعد جب ان کا مجموعہ " غزل " چھپ کر منظر عام پر آیا تو مجروح ایک بڑے اور مستند غزل گو شاعر بن چکے تھے ۔ "غزل" کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ۔ دوسرا مجموعہ نہ آنے کی وجہ ان کی کم گوئی اورفلمی مصروفیات کہی جاتی رہی اور یہ سچ بھی ہے ۔ تاہم ایک عرصہ دراز کے بعد " مشعلِ جاں " 1991 میں شائع ہوا ۔ اس وقت تک مجروح نہ صرف ترقی پسند غزل بلکہ اردو غزل اور کلاسیکی غزل کے آخری شاعر کے حیثیت سے تاریخ کا روشن باب بن چکے تھے ۔آ خر یہ باب اسی (80) سال کی عمر میں ایک غیر معمولی شہرت اور تاریخی حیثیت کو چھوڑ کر 2000 ء میں اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔
0 تبصرے