Ad

مرزا داغ کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

 

مرزا داغ دہلوی کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ


داغ کی غزلیں مع تشریح و خلاصہ

Daag dehlvi ghazal tashreeh

ابھی آپ نے داغ کی زندگی کے حالات کا تفصیل سے مطالعہ کیا ۔ ان کی غزل گوئی کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور داغ کی غزل کی خصوصیات سے آ گہی حاصل کی ۔ اب ہم داغ کی چارغزلیں آپ کے مطالعے کے لیے پیش کر ر ہے ۔ بہ طور نمونہ داغ کے دو اشعار کی تشریح بھی کی جاۓ گی ۔


غزل ۔ ا

غضب کیا ترے وعدے پر اعتبار کیا 

تمام رات ‘ قیامت کا انتظار کیا


تھے تو وعدۂ دیدار ہم سے کرنا تھا 

یہ کیا کیا! کہ جہاں کو امیدوار کیا


!فسانۂ شبِ (رات) غم، ان کو اک کہانی تھی 

کچھ اعتبار کیا کچھ نہ اعتبار کیا


فلک سے طور، قیامت کے بن نہ پڑتے تھے

اخیر اب تھے آشوبِ روزگار کیا


بنے گا مہر ، قیامت بھی، ایک خال سیاہ 

جو چہرہ داغ سیاہ رو، نے آشکار کیا

غزل ۔ ۲

خاطر سے، یا لحاظ سے، میں مان تو گیا 

جھوٹی قسم سے آپ کا، ایمان تو گیا


دل لے کے مفت ، کہتے ہیں! کچھ کام کا نہیں 

الئی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا


دیکھا ہے بت کدے میں جو اے نے کچھ نہ پوچھ 

ایمان کی تو یہ ہے، کہ ایمان تو گیا


افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں

لیکن اسے جتا تو دیا؛ جان تو گیا


ہوش و حواس و تاب و تواں جاچکے ہیں داغ 

اب ہم بھی جانیں والے ہیں، سامان تو گیا

مرزا داغ دہلوی کے حالات زندگی


غزل ۔ ۳

ساز یہ کینہ ساز کیا جانیں

ناز والے نیاز کیا جانیں


کب کسی در کی جبہہ سائی کی

شیخ صاحب نماز کیا جانیں 


جو راہِ عشق میں قدم رکھی 

وہ نشیب و فراز کیا جانیں


پوچھیے مئے کشوں سے لطفِ شراب

یہ مزه پاک باز کیا جانیں 


جو گزرتے ہیں داغ پر صدمے

آپ بندہ نواز کیا جانیں



غزل ۔ ۴

سبق ایسا پڑھا دیا تو نے

دل سے، سب کچھ، بھلا دیا تو نے 


لاکھ دینے کا ایک دینا ہے

دل بے مدعا دیا تو نے 


نار نمرود کو کیا گلزار

دوست کو یوں بچا دیا تو نے 


مجھ گنہ گار کو جو بخش دیا

تو جہنم کو کیا دیا تو نے 


داغ دہلوی کے اشعار کی تشریح

ہوش و حواس و تاب و تواں جاچکے ہیں داغ 

اب ہم بھی جانیں والے ہیں، سامان تو گیا 

     ہوش و حواس اور تاب ، طاقت اور توانائی سے زندگی ہے ، زندگی میں خوشی ہے، ہماہمی ہے چہل پہل ہے اور رنگا رنگی ہے اور جب ہوش وحواس اور تاب و توانائی نہ ہوں تو زندگی کہاں؟ اس کا نام موت ہے ۔انسان کہیں سفر پر جا تا ہے تو پہلے اپنا سامان روانہ کر دیتا ہے ۔ سفر آخرت پر جانے سے پہلے بھی انسان اپنی زندگی کے سامان ہوش و حواس اور طاقت و توانائی سے بہ تدریج محروم ہوتا جاتا ہے اور جب وہ موت کے قریب ہوتا ہے تو یہ چیز یں رخصت ہو جاتی ہیں ۔ داغ کہتے ہیں کہ میرا بھی یہی عالم ہے ۔ اب میرا آخری وقت آ چکا ہے گویا سامان جا چکا ہے اور میں بھی اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں


داغ کو کون دینے والا تھا

جو دیا اے خدا دیا تو نے 

     داغ کواللہ تعالی نے نواب میر محبوب علی خان آصف سادس کے توسط سے خوب نوازا۔ خطابات، جاگیر، وظیفہ، مرتبہ، عزت شوکت، دولت، مقبولیت اور شہرت، سب کچھ ۔ داغ کہتے ہیں کہ کسی انسان کی کیا حثیت کہ وہ دوسرے انسان کو نوازے، دینے والا تو خدا ہے ۔ داغ کے پاس بھی جو کچھ ہے وہ کسی نے نہیں دیا ۔ جوبھی ہے خدائے تعالی کا دیا ہوا ہے ۔ گویا دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے ۔


خلاصہ

      داغ 25 مئی 1831 ء کو دبلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نواب شمس الدین خان کے انتقال کے بعد ان کی والدہ پہلے نواب ضیا ءالدین احمد خان نیر درخشاں اور پھر آ غا تراب علی کے ساتھ رہیں بعد میں انھوں نے ولی عہد نواب مرزا فخرو سے نکاح کر لیا اور قلعے میں آگئی داغ بھی اپنی والدہ چھوٹی بیگم کے ساتھ قلع میں رہنے لگے ۔ داغ کی تعلیم وتربیت قلعہ ہی میں شاہانہ انداز میں ہوئی ۔ انھوں نے اپنے دور کے مروجہ علوم اور ہنر سیکھے ۔ 10جولائی 1856 کومرزا فخرو کا انتقال ہوا ۔ داغ اور ان کی والدہ کو قلعہ چھوڑنا پڑا۔ داغ اپنی خالہ عمدہ بیگم کے ساتھ رامپور گئے ۔ عمدہ بیگم کا نواب میر یوسف علی خان والی رامپور سے تعلق تھا۔ عمدہ بیگم کی صاحبزادی فاطمہ بیگم سے داغ کی شادی ہو چکی تھی اس لیے داغ رامپور میں یوسف علی خاں کے مہمان رہے۔ نواب یوسف علی خان کے انتقال کے بعد نواب کلب علی خان مسند نشین ہوئے ۔ داغ سے ان کے اچھے مراسم تھے ۔ انھوں نے داغ کو زمرۂ مصاحبین میں شامل کرلیا۔ داغ کی مزے سے گزرنے لگی ۔ یہیں ان کی ملاقات کلکتے کی طوائف منی جان حجاب سے ہوئی جس پر وہ دل و جان سے فدا ہو گئے ۔ کلب علی خان کے انتقال کے بعد نواب مشتاق علی خان تخت نشین ہوئے ۔انھیں شعر ادب سے قطعی دلچسپی نہیں تھی ۔ داغ کو رامپور کی ملازمت چھوڑنی پڑی ۔ اس دوران انھوں نے شمالی ہند کے مختلف علاقوں میں اپنے شاگردوں کے پاس گزارا اور پھر اپنے بعض قدر دانوں کے اصرار پر 17 اپریل 1888ء کو حیدرآباد پہنچے ۔ ایک سال سے کچھ زیادہ ہی یہاں رہے لیکن انھوں نے جب دیکھا کہ دربار میں رسائی کی صورت نہیں بن رہی ہے تو حیدرآباد سے لوٹ گئے ۔ بنگلور

بمبئی اور دہلی میں وقت گزارا اور پھراپنے پرستاروں اور شاگردوں کے اصرار پر 3 یا 4 اپریل 1890 دوبارہ حیدرآباد آئے ۔ اس بار حیدرآباد میں ان کی قسمت کا ستارہ چمکا ۔ آصف سادس نواب میر محبوب علی خان کے ہمراہ دہلی اور کلکتہ گئے ۔ حجاب سے بھی ملتے رہے، شاہانہ زندگی گزاری اور آخر میں 14 فروری 1905 کوداعی اجل کو لبیک کہا۔ دوسرے دن عیدالاضحی تھی، مکہ مسجد میں نماز جنازہ ادا ہوئی اور درگاہِ یوسفین کے احاطے میں تدفین عمل میں آئی ۔

     داغ کی شخصیت ہی کی نہیں ان کی شاعری کی تہذیب و تزئن میں لال قلعے کے ماحول کا بڑا حصہ رہا ہے ۔ داغ کو قلعے کی رنگین فضا اور آزادانہ ماحول میں، ہر طرح کا عیش میسر تھا۔ رامپور اور حیدرآباد میں بھی دنیا کی ساری نعمتیں انھیں حاصل رہیں ۔ ہجر کی تکالیف سے وہ گزرے ہی نہیں وصل ہی ان کا مقدر رہا۔ انھوں نے محبوب کو پانے کی کوشش نہیں کی، محبوب ہی ان کا گرویدہ رہا۔ اس لیے داغ کی شاعری میں ہجر کی باتیں نہیں وصال ہی کے قصے ہیں، حسن محبوب کے تذکرے ہیں، اس کے ناز و انداز، لب و رخسار اور دہن و کمر کی با تیں ہیں ۔ داغ نے ان کو سو سو طرح لذت لے کر بیان کیا ہے ۔ داغ نے جس کھلے اور آزادانہ ماحول میں زندگی کی اس کا لازمی نتیجہ تھا کہ ان کی غزل میں ہوسنا کی ، شوخی ، چنچل پن اور چھیڑ چھاڑ کی باتیں راہ پاگئی ہیں اور کہیں کہیں یہ مذاق سلیم پر گراں بھی گزرتی ہیں لیکن داغ نے جس ماحول میں پرورش پائی تھی اس کو دیکھتے ہوئے ان باتوں کو نظر انداز کرنا پڑ تا ہے ۔ اس نوع کے اشعار کے ساتھ یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ داغ نے قلعے اور درباروں کی زندگی سے جن اخلاقی قدروں کو حاصل کیا تھا انہیں اپنے اشعار میں پیش کیا ہے ۔ ان کے پاس ایسے کئی اشعار بھی میں جائیں گے جن میں انھوں نے اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا احترام ہی نہیں کیا بلکہ ان کو عام کرنے کی سعی بھی کی۔ ان کا کلام اس زاویے سے بھی اہمیت رکھتا ہے ۔

     داغ روایتی غزل کے شاعر ہیں اپنے اس روایتی انداز کے باعث وہ اردو کے صف اول کے غز ل گو شاعروں میں شمار نہیں کیے جاتے پھر بھی اردو غزل میں داغ کی اہمیت ہے۔ ان کی غزل کے بانکے تیور متاثر کرتے ہیں۔ داغ کے مزاج اور ان کے لہجے نے اردو شاعری کے روایتی اور گھسے پٹے موضوعات کو بھی نیا رنگ و آہنگ دیا، معشوق سے داغ کا رویہ، رقیب سے برتاؤ اور ناصح و واعظ سے مراسم۔ ان کے ہاں بڑے طرح دار اشعار ملتے ہیں۔

     اردو غزل کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی کی کشاکش سے دور رہی۔ عصرِ حاضر کی غزل کے بارے میں تو ایسا نہیں کہا جاسکتا لیکن پہلے بھی ہمارے شاعروں کے کلام میں زندگی نبض دھڑکتی ملتی ہے۔ داغ جیسے شاعر کے پاس بھی اپنے دور کے انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور بکھراؤ کی تصویریں ملتی ہیں ۔ دہلی کے لٹنے کا بیان ہے، نظموں ہی میں نہیں غزلوں میں بھی ۔ اس سے داغ کی عصری حسّیت کا پتہ چلتا ہے۔۔۔۔۔ لیکن سچ پوچھیے تو داغ زبان کے شاعر تھے۔ زبان کا برمحل، فنکارانہ اور موزوں استعمال داغ کی طرح بہت کم شاعروں نے کیا ہوگا۔ وہ دبستان دہلی کے آخری نمائند ہ شاعر تھے۔ قلعہ معلیٰ کی زبان ، اس کے محاورے اور روزمرہ ان کے مزاج اور قلم میں رچے بسے تھے ۔ انھوں نے دہلی کی زبان کو ایک درجہ دیا ۔ داغ کے پاس کوئی فکر و فلسفہ نہ سہی ان کے ہاں گہرائی بھی نہ ہو لیکن محبوب کے انداز و ادا اور حسن وعشق کی مختلف کیفیات کے ساتھ زبان کا چٹخارہ ان کے پاس ہے ۔ اور پھر یہ کہ حالی اور آزاد کے زیر اثر نظم نگاری کے فروغ کے زمانے میں داغ کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے غزل کو سنبھالا دیا ۔ آ ج بھی غزل جس وزن و وقار کی حامل ہے اس میں داغ کا بڑا حصہ ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے