ناصر کاظمی کی شاعری کا اسلوب
Nasir kazmi shayari
برجستگی ، شگفتگی اور ارتباط ان کا شعری وصف ہے ۔ وہ روزمرہ زندگی کے واقعات کو نظم نہیں کرتے ۔ وہ اپنے باطن میں ڈوب کر صدیوں کے انسانی تجربوں کی بازیافت کر تے ہیں اور ان تجربوں کے مطابق اپنے اسلوب کی تشکیل کرتے ہیں ۔ انتظار حسین سے آخری ملاقات میں انھوں نے اپنے شعری عمل کے بارے میں کہا ہے:
" بات اصل یہ ہے کہ جسے آپ عطر کی شیشی کھولتے ہیں تو خوشبو آپ کو آتی ہے لیکن پھول اور باغ تو کہیں نظر نہیں آتے پسں ایسے ہی شاعری میں میری یہ تمام واقعات بہ راہ راست آ پ کو نظر تو نہیں آئیں گے ۔‘‘
ان کا شعری اسلوب روایت کے گہرے شعور سے مزین ہے ۔ وہ روایت کے دل دادہ ہیں ۔ ان کی نظر کلاسیکی غزل پر ہے ۔ انھوں نے میر کا خاص مطالعہ کیا ہے اور میر کے احیا کے لیے خاصا کام کیا ہے ۔ غز ل کو داخلی صورت عطا کرنے اورا سے ملائمت ، دھیماپن ، سوز و گداز سے متصف کرنے میں انھوں نے میر سے استفادہ کیا ہے لیکن انھوں نے خود بھی اپنے شعورِ فن سے کام لے کر ان کو خوش گوار تبدیلیوں سے ہم کنار کیا ۔ وہ غزل کی صنف اور ہئیت پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ غزل کے شعر میں کم سے کم لفظوں سے زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کرنے کی آگاہی رکھتے ہیں ۔ اکثر غزل گو ، خواہ قدیم ہوں یا جدید ، لفظوں کو فیاضی سے استعمال کرتے ہیں اور شعری عمل کو زک پہنچاتے ہیں ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں کلاسکیت کے ساتھ جدت پسندی کا اظہار بھی ملتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے یہاں روایت اور جدت گلے ملتی نظر آتی ہیں ۔
ناصر کاظمی نے غزل میں ایک اہم تبدیلی یہ کی ہے کہ اسے خالص شعری تجربے اور اس کی وسعت اور پھیلاؤ سے آشنا کیا۔ وہ تشریحی اجزا سے دور رہتے ہیں اور کفایت لفظی سے کام لیتے ہیں ۔ اس طرح سے شعری تجربہ شاعر کے بطن سے فطری طور پر اگتا ہے ۔ ملاحظہ کیجیے:
آج کی رات نہ سونا پارو
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
لوگ سو رہے ہیں
رات بدل رہی ہے
اس بستی سے آتی ہے
آوازیں زنجیروں کی
انکی غزل کی یہ خصوصیت قابل ذکر ہے کہ وہ اسے داستانوی اسراریت ، دلکشی اور رمزیت سے متصف کرتے ہیں ، انھیں داستانوں میں خصوصی دلچسپی ہے، انتظار حسین کی داستانویت بھی ان پر اثر انداز رہی ہے ، ایک نظم " نشاط خواب " میں انھوں نے داستانوی فضا تخلیق کی ہے :
سچ مچ کا اک مکان ، پرستاں کہیں جسے
رہتی تھی اس میں ایک ، پری زاد پدمنی
اونچے کھلی فصیلیں ، فصیلوں پہ برجیوں
دیواریں سنگِ سرخ کی ، دروازے چندنی
ناصر کاظمی کے حالات زندگی
غزل میں ان کے چند ہی گنے چنے الفاظ داستانوی تحیر کی فضا پیدا کرتے ہیں ۔ یہ تحیر خیزی ان کے اشعار میں نمایاں ہے اور ان کے شعری اسلوب کی شناخت بن گئی ہے۔
سوگئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی
سرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اک شہر بسا تھا
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غمِ صد کارواں دیکھا نہ جائے
صدائیں آتی ہے اجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کناروں پر
ناصر کاظمی کی شب بیداریوں کا حال ہم پڑھ چکے ہیں ۔ رات ان کی شاعری کا بھی خاص محرک ہے ۔ ناصر کاظمی لکھتے ہیں :
" احمد نے کہا کہ میری ’’سور ہور ہو‘‘ والی غزل رات کی عکاسی کرتی ہے ۔ اس پر میں نے ایک جملہ کہا کہ اس میں صنعتی دور کے قدموں کی چاپ آواز ہے۔ رات کا تعلق حسن ، تخیل ، وجدان ، وحدتِ فکر اور آرام سے ہے جو اس دور میں نایاب ہے ۔ اس لیے آ ج کی ہر بڑی اور صحیح شاعری میں رات کا تصور بہ درجۂ اتم ہے ۔ میری شاعری میں رات کا گہرا سایہ ہے اور رات سے وابستہ تمام تخلیقات : چاند ، شبنم ، زمین ، خواب ، پچھلا پہر ، آخر شب ، سرشار ستارے ، جگنو ، شمع ، چراغ ، گوہر شب چراغ ( خود کو کہا ہے ) ، شعلہ ، آگ ، بانسری کی دھن اور آدھی رات وغیرہ وغیرہ "
ناصر کاظمی کے چند شعر ملاحظہ ہوں :
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منھ اندھیرے
آئیں ساون کی اندھیری راتیں
کہیں جگنو ، کہیں تارا نکلا
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
رین اندھیری ہے اور کنارا دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
اندھیری شام کے پردے میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
ہوا چلی تو جاگے جنگل
ناؤ چلے تو ندیا جاگے
دیارِ دل کی رات میں ، چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا ، وہ شکل تو دکھا گیا
مئے کدہ بجھ گیا تو کیا رات ہے میری ہم نوا
سایہ ہے میرا ہم سبو ، چاند ہے میرا ہم سخن
اس شہر بے چراغ میں ، جائے گی تو کہاں
آ اے شب فراق ، تجھے گھر ہی لے چلیں
ان کی غزل کا ایک امتیازی وصف اس کی برجستگی ہے ۔ یہ برجستگی شاعر کے غیر معمولی گداز ، رچاؤ اور انہماک کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ ان اشعار میں زیادہ نمایاں ہے جو روز مرہ میں استمعال ہونے والے الفاظ سے تشکیل پاتے ہیں اور فارسی کی بوجھل تراکیب سے پاک ہیں :
کڑے کوسوں کے سناٹے ہیں لیکن
تری آواز اب تک آرہی ہے
رین اندھیری ہے اور کنارا دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ناصر کاظمی گہرا لسانی شعور رکھتے ہیں ۔ وہ لفظ کی قدر و قیمت سے آشنا ہیں ۔ وہ روز مرہ میں بولے جانے والے الفاظ کو چنتے ہیں اور ان کی مناسب ترتیب سے اپنی تخیلی دنیا تخلیق کرتے ہیں ۔ وہ الفاظ کو توڑتے پھوڑتے ہیں ، ان کا استعمال حزم و احتیاط سے کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نئے شعرا کی طرح و شکستہ پیکروں کو ہاتھ نہیں لگاتے اور نہ ہی غیر مانوس الفاظ کو برتتے ہیں ۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت پیکر تراشی سے نمایاں ہو جاتی ہے ۔ ان کے اسلوب میں جوئبار کی روانی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ موسیقی اور مصوری سے بھی مس رکھتے ہیں ۔ لکھتے ہیں:
" میں تو موسیقی سنگیت اور مصوری(تصویر کاری) کو بھی اپنی روایت سمجھتا ہوں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ مصوری اور موسیقی انسانی تہذیب کے لا شعور میں محفوظ رہتی ہیں اور ان کا اظہار شاعری ہے "
Nasir kazmi shayari
اس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فن کی جڑیں شاعر کے لاشعور کی گہرائیوں میں پیوست ہوتی ہیں اور شاعری ، مصوری اور موسیقی کے مربوط تصور سے منسلک ہے ۔ فن کے اس لا شعوری عمل کو اہمیت دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فن ارادی سعی یا اکتساب کا محتاج نہیں ۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شاعری ، موسیقی اور مصوری سے ربط خاص رکھتی ہے ۔ ناصر کاظمی کے پیکر بصری اور سمعی کیفیات کو متحرک کرتے ہیں ۔ پیکر تراشی ہی کی طرح ناصر کاظمی استعارہ کاری سے بھی کام لیتے ہیں ، استعارے ارادی طور پر استعمال نہیں ہوتے بلکہ جوش تخلیق سے نمود کرتے ہیں ، استعارہ مختلف اور متضاد اجزا کو مربوط کرنے کا عمل ہے۔ ناصر کے اشعار میں استعارے تازگی اور ندرت رکھتے ہیں:
ریت کے پھول ، آگ کے تارے
تنہائی کے آتش داں میں
غزل میں شاعر اپنے خیالات کا راست اظہار نہیں کرتا کیونکہ یہ صنف بنیادی طور پر علامتی نوعیت کی ہے۔ میر اور غالب کے یہاں علامتی پیرایۂ بیان نمایاں ہے۔ علامت شعر میں ظاہری ، اوپری یا لغوی معانی کے علاوہ بعض اور معنوی جہات پر حاوی ہو جاتی ہے ۔ علامت کو میکانکی انداز سے استعال کرنے سے شعر بے معنی ہوکر رہ جا تا ہے ۔اصل میں ایک بڑا اور سچا شاعر علامتی پیرائے ہی میں اپنے داخلی تجربات کو پہچان لیتا ہے ۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں جو روز مرہ میں استعمال ہونے والے الفاظ سے تشکیل پائے ہیں اور فارسی کی بوجھل تراکیب سے پاک ہیں:
یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں
تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں
کنج میں بیٹھے ہیں چپ چاپ طیور
برف پگھلے گی تو پر کھولیں گے
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
ترقی پسند شعراء
ناصر کاظمی اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب اشتراکیت تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہی تھی ، ترقی پسند شعرا شاعری کو نظریے کے پرو پگنڈہ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ جوش ملیح آبادی جیسے شعرا ، شعر کو آزادی حاصل کرنے کا وسیلہ بناتے تھے ۔اس طرح شاعری کی خارجیت اور مقصدیت کی شکار ہوگئی تھی۔ ناصر کاظمی اس دور سے تعلق رکھتے ہیں جب شعر کا تخلیقی کردار دھندلا گیا تھا ۔ تقسیم کے فوراً بعد شاعری مارکسی پرو پگنڈہ اور انقلابی گھن گرج سے دور ہو رہی تھی۔ ناصر کاظمی نے اس زمانے میں اپنی شعری حسیت کا تحفظ کیا۔ فوراً بعد اردو میں جدیدیت کا رجحان فروغ پانے لگا ۔ جدیدیت نے شاعری کے مقصدی کردار سے انحراف کیا لیکن ساتھ ہی ہئیت کی طرف مائل ہوئی ۔ کئی شاعر اس رو میں بہہ گئے لیکن ناصر کاظمی اس سے متاثر نہ ہوئے ۔ وہ کسی طے شدہ نظریے کی غلامی پر رضا مند نہ ہوئے ۔ وہ ثابت قدمی سے اپنے شعری مسلک پر کار بند رہے ۔ دس پندرہ برسوں کے بعد شعری فضا سے گرد و غبار چھٹنے لگا اور آس پاس کی چیزیں صاف صاف نظر آنے لگیں ۔ شاعری کا قارئین سے رشتہ قائم ہونے لگا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ شاعری روایت کے پس منظر میں تجر بہ پسندی کے باوجود اپنے وجود کی پہچان پر زور دینے لگی ۔ اس موقع پر ناصر کاظمی کی شاعری کی معنویت کا احساس فزوں سے فزوں تر ہونے لگا۔
2 تبصرے
باکمال ۔
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب
حذف کریں