قصیدے کی ادبی اور فنی خصوصیات
قصیدہ نگار اپنے ممدوح سے انعام و اکرام ، توجہ و التفات کا متمنی ہوتا ہے اس لیے قصیدے میں اس امر کی کوشش کرتا کہ مضمون میں ندرت و کمال پیدا کیا جائے ۔ انوکھی نرالی بات کہہ کر اپنی قابلیت کا رعب جمائے۔ غزل اور دیگر اصناف شاعری کے مقابلے میں قصیدے کا اندازِ بیان محض اس کی لفظیات سے پہچان لیا جاسکتا ہے ۔ قصیدے میں الفاظ کے در و بست ۔ ان کی دلکشی ، مختلف علوم و فنون سے ان کا علاقہ ، نیز شاعرانہ اوصاف کی ہمہ گیری ، شاعر کے ممدوح کی قابلیت کا ادراک کرواتی ہے ۔ گویا قصیدے کی تشبیب مدوح کی توجہ اور دلچسپی کا باعث ہوگی ۔ بعد ازاں وہ محض ایک دو شعر میں گریز کی جانب رخ کرے گا پھر اصل موضوع مدح اور آ خر میں دعائیہ اشعار پر قصید ختم کرے گا ۔ ان عناصر کی ترتیب میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اب یہ اور بات ہے کہ شاعر تشبیب میں زمانے کی شکایت کرے بد حالی پر روشنی ڈالے یا موسم بہار کی کیفیات کا ذکر کرے جس سے قصیدے کی نوعیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ تشبیب میں اس طرح کا کوئی اشارہ میل یا ہم آہنگی نہ دکھائی دے تو گریز کے بعد مدح کے اشعار میں توازن برقرار نہیں رہ سکتا۔ فنی لحاظ سے جن قصائد میں تشبیب یا نسیب نہ ہو انھیں مقتضب کہا جاتا ہے ۔ عربی شاعری میں ایسے قصیدے کو تبراء ( دم بریدہ ) کہا جاتا ہے ۔ قصیدے کی ادبی اور فنی خصوصیات کا راست تعلق اس کے عناصر سے بالخصوص تشبیب سے ہے جب کہ قصیدے کا دوسرا جزو گریز قصیدے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ وہ نقطہ اتصال و ارتباط ہے جو تشبیب سے شاعر کو مدح کی جانب لے آتا ہے۔ یہاں شاعر کی صلاحیت کا امتحان ہوتا ہے ، فن پر عبور اور مہارت کا ثبوت بھی مل جاتا ہے ۔ ماہرین ادب کی رائے میں قصیدہ نگار جس قدر اعلی صلاحیتوں کا حامل ہوگا قصیدے میں گریز اتنا ہی مضبوط مربوط اور پر اثر ہوگی ۔ عرب شاعروں سے زیادہ فارسی شعرا نے گریز کی اہمیت کو اجا گر کیا اور اسے ایک مستقل فن کی صورت دی۔
قصیدہ کی تعریف و خلاصہ سبق
اصناف شاعری میں ہر صنف سخن اپنے اپنے اظہار اور اسلوب میں انفرادیت رکھتی ہے ۔
قصیدہ ، شاعری کی وہ صنف ہے جس میں کسی کی مدح یا ہجو کی جاتی ہے ۔ قصیدہ عربی شاعری سے ماخوذ ہے ۔ قصیدے میں مدح یا ذم یا وعظ و نصیحت حکایت و شکایت کے مضامین نظر آتے ہیں ۔ ابن خلدون ابن رشیق سے لے کر ضیاء الدین احمد بدایونی ، جلال الدین احمد جعفری ، نجم الغنی خان کے علادہ مولانا حلی ، انشاء اللہ خان انشاء ، پروفیسر محمود الٰہی ، ابو محمد سحر ، امداد امام اثر ، پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر سید جعفر سبھوں نے اس بارے میں اپنے خیالات سے آ گاہ کیا ہے۔ قصیدہ، ایک مسلسل نظم ہے مگر یہ تسلسل ایک خاص محور پر گھومتا ہے ۔ قصیدے کی صنفی شناخت کے لیے موضوع اور ہئیت دونوں کو اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی ہئیتی ترکیب میں مطلع یا پہلے شعر کے دونوں مصرعوں میں قافیے کی پابندی ضروری ہے بعد ازاں تمام اشعار کے ثانی مصرعوں کا ہم قافیہ ہونا بھی لازم ہے ۔ قصیدے کے اشعار کی تعداد کم از کم اکیس ( 21 ) اور زیادہ سے زیادہ کی پابندی یا حد مقرر نہیں ۔ بقول ابو محمد سحر " پانچ سے لے کر دو سو ( 200 ) اشعار تک کے قصائد ملتے ہیں " طویل قصیدوں میں ایک سے زیاد مطلعوں کی روایت ملتی ہے۔ اجزاۓ ترکیبی کے لحاظ سے قصیدے کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔ مشبب اس قصیدے کو کہتے ہیں جس میں تشبیب ہو اور گریز کی پابندی کی جائے ( تشبیب کو نسیب بھی کہا گیا ہے ) اور جن قصیدوں میں ان کی پابندی نہیں کی جاتی وہ مقتضب کہلاتے ہیں۔ عام طور پر قصیدے میں حکمرانوں ، بادشاہوں ، امیروں کی مدح و ستائش کے ساتھ ساتھ حسن طلب کا پہلو ملے گا۔ قصیدے کی تشبیب میں شاعر عشق و عاشقی کا ذکر کرتا ہے ۔ اس میں فخر و مباہات ، عظمت و کمال کا اظہار کر تا ہے تشبیب شباب سے مشتق ہے اس لیے اس میں تغزل کا رنگ ملتا ہے ۔ تشبیب کے بعد قصیدے میں گریز اہم جزو ہے اور یہ شاعر کی تخلیقی صلاحیت ، فنی بصیرت اور زبان و بیان پر دسترس کا غماز ہوتا ہے محض ایک دو شعر میں اپنی بات کہہ کر وہ شاعری کی پوری فضا اور ماحول کا رخ بدلتا ہے ۔ اسے عربی میں خروج ، توصل اور تخلص بھی کہا گیا ہے۔ بہ الفاظ دیگر شاعر تشبیب سے روگردانی کر تے ہوئے حسن طلب اور ممدوح کی تعریف و توصیف کے دائرے میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ ایک طرح سے بہانہ ہے جس کے ذریعے شاعر خود کو تشبیب سے مداحی پر مائل کر تا ہے یہ مرحلہ نازک اور اہم ہے ۔ گریز کے تحت شاعر صرف ایک شعر یا ایک سے زائد شعر بھی کہ سکتا ہے۔ عربی شاعری میں اس جانب کم توجہ کی گئی لیکن بعد کے شعراء نے اس کو اہمیت دی اور بڑی حد تک فارسی میں اسے نئے انداز سے پیش کیا جانے لگا ۔ اجزائے ترکیبی کے لحاظ سے گریز کے بعد مدح کا حصہ قصیدے کی جان ہوتا ہے ۔ اس میں مداح اور ممدوح کے آپسی روابط ، تعلقات سبھی کچھ نمایاں ہوتے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ مداح اور ممدوح کے درمیان رشتۂ محبت و مودت جس قدر مضبوط و مستحکم ہوگا اتنا ہی قصیدے کا یہ جزو اہمیت کا حامل ہو گا اس منزل پر شاعر طلاقت لسانی اور شاعرانہ اوصاف بہترین استعمال کر تا ہے جسے محض داد و تحسین ہی سے علاقہ نہیں رہتا بلکہ انعام و اکرام ، صلہ ستائش تقرب و اعزاز کی خواہش بھی قرار دیا جاتا ہے ۔ مولانا حالی نے اس طرح کی شاعری پر تنقید کی ہے ۔انھوں نے مداحی کو خوشامد تملق اور مصلحت آمیز تعریف کہا جو حقیقت سے دور ہوگی ۔ تا ہم مرزا غالب کے حوالے سے کہاجاسکتا ہے کہ قصہ گوئی کو زبان و بیان پر دسترس اور اعلی صلاحیتوں کا اظہار سمجھا گیا۔ تبھی تو مرزا ابراہیم ذوق کو پورا شاعر اور شاہ نصیر کو ادھورا شاعر کہتے ہیں ۔
قصیدہ گوئی کو موضوعات کی بنا پر چار قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے (1) مدحیہ (2) ہجویہ (3) وعظیہ (4) بیانیہ۔ اکثر دعائیہ قصائد بھی کہے گئے ہیں۔ یہاں یہ بات واضح کر دی جاتی ہے کہ مدحیہ انداز میں حمد پروردگار ، نعت رسول اکرمﷺ ، منقبت بزرگان دین کو بھی قصیدہ گوئی کے ذیل میں شمار کیا جاۓ گا۔ چنانچہ دکنی شاعری خصوصاً دکنی مثنویوں میں شعرا نے حمد و نعت و منقبت کا التزام کیا ہے ، بعد ازاں بادشاہ وقت کی مداحی کی گئی ۔ قصائد میں مدح کے ساتھ ساتھ ہجو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، گو اس کا چلن محدود رہا۔ اردو میں سودا کے بعض قصائد اس ذیل میں آتے ہیں جب کہ دکنی شعرا میں نصرتی نے اپنے ایک ہم عصر شعر ہاشمی کی ہجو میں اشعار لکھے ۔ اردو میں سودا کا ایک قصیدہ " در نصائح فن شعر و طعن بر شاعری و در مدح مہربان خان " اسی ذیل میں آتا ہے ، قصیدے کی چوتھی قسم بیانیہ ہے جس میں موضوع کے لحاظ سے مناظرِ قدرت کیفیات اور حالات کو نظم کیا جاتا ہے ۔ اسے ہم سماجی آلام و مصائب کا تذکرہ کہہ سکتے ہیں ۔ بہر حال قصیدے کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ اردو قصیدہ نگاری کی روایت اپنے مخصوص طرز و فکر سے عرصۂ دراز تک مقبول خاص و عام رہی شعراء کرام نے اس صنف سخن میں کئی ایک عظیم الشان کارنامے انجام دیے ہیں ۔
0 تبصرے