قصیدہ مدیح خیر المرسلین کے دس اشعار کی تشریح
Qasida madih e kherul mursalin ashaar kibtashreeh
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ ، لاتی ہے صبا گنگا جل
محسن کاکوروی نے اس قصیدے کی تشبیب میں موسم بہار و برسات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے ۔ وہ ہندوستانی فضا میں ختم المرتبت حضرت مصطفی کی مدح و ستائش کرنا چاہتے ہیں اس لیے انھوں نے اس کی تمہید ہندوؤں کے پوتر استھانوں سے اٹھائی ہے ۔ کہتے ہیں کہ بادل کاشی سے متھرا کی جانب رواں دواں ہے اور ہوا ، بجلی کے کاندھے پر گنگا کا پانی، بادل کی شکل میں لا رہی ہے
گھر میں اشنان کریں سرو قدان گوگل
جاکے جمنا پہ ، نہانا بھی ہے ، اک طول امل
گنگا کا پانی ، بادل کی شکل میں بجلی کے کاندھے پہ سوار ہوکر خود متھرا آ رہا ہے ۔ اس لیے اب گوکل کے قریب رہنے والوں کو جمنا نٹ پر جا کر اشنان کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑے گی ۔ وہ گنگا کے پانی سے اپنے گھر میں ہی آ سانی سے اشنان کر سکتے ہیں ۔
!خبر اڑتی ہوئی آئی ہے ، مہابن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ، ہوا پر بادل
ابھی ابھی مہابن میں ( ضلع متھرا میں ہندوؤں کا مقدس مقام جہاں تیرتھ استھان ہے ) یہ خبر اڑتی ہوئی آئی ہے کہ گنگا کا پانی بادل کی صورت میں ہوا کے دوش پر سوار متھرا ، تیرتھ کو چلا آرہا ہے ۔
کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی
ہند کیا ! ساری خدائی میں، بتوں کا ہے عمل
کالی گھٹاوں کی رعایت سے کام لیتے ہوئے شاعر کہتا ہے کہ دور دور تک جس سمت میں بھی نظر جاتی ہے کالی کالی گھٹائیں گھٹا نظر آتی ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا پر بتوں کی حکمرانی ہو ۔
جانب قبلہ ہوئی یورش ابر سیاه
کہیں پھر ، کعبے میں قبضہ نہ کریں ، لات و ہبل
شاعر کہتا ہے کہ سیاہ بادل مغرب کی جانب تیزی سے بڑھتے چلے جارہے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ خانہ کعبہ میں پھر سے لات و ہبل داخل ہو جائیں اور قبضہ کرلیں ۔
تہہ و بالا کیے دیتے ہیں ہوا کے جھونکے
بیڑے بھادوں کے نکلتے ہیں ، بھرے گنگا جل
ساون رخصت ہوا ، بھادوں کا مہینہ آیا ، گنگا جل بادل کی شکل میں آسان پر رواں دواں ہے ۔ ان بادلوں کو ہوا کے جھونکے تیزی سے حرکت دے رہے ہیں۔
، کبھی ڈوبی ، کبھی اچھلی ، مہہ نو کی کشتی
بحر اخضر میں ، تلاطم سے پڑی ہے ہلچل
بادلوں میں چاند کبھی ڈوبتا ہے اور کبھی ابھرتا ہے اس منظر کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بحر اخضر کے بھنور میں کوئی کشتی پھنسی ہوئی ہے۔
، ابر بھی چل نہیں سکتا ، وہ اندھیرا گھپ ہے
برق سے رعد ، یہ کہتا ہے کہ لانا مشعل
چاروں طرف اس قدر اندھیرا چھایا ہوا ہے کہ ابر کو بھی چلنے کے لیے راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ بجلی کی کڑک بھی برق سے رہنمائی کے لیے مشعل مانگ رہی ہے۔
جس طرف سے گئی بجلی پھر ادھر آ نہ سکی
قلعۂ چرخ میں ہے بھول بھلیاں بادل
بجلی جس مقام سے روانہ ہوئی اس مقام پر اس کا واپس آنا مشکل ہوگیا۔ وہ بادل کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہی ہے اس کو اصل راستے کا سراغ نہیں مل رہا ہے
جگنو پھرتے ہیں ، جو گلبن میں تو ، آتی ہے نظر
مصحفِ گل کے حواشی پہ طلائی جدول
پھولوں کے باغ میں جگنو کچھ اس طرح چمک رہے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے پھولوں کی کتاب کے چاروں طرف سونے کی جدول کھینچ دی ہے۔
UGC NET URDU SYLLABUS
خلاصہ
اس اکائی میں ہم نے محسن کاکوروی کے حالات زندگی بیان کیے ۔ وہ 1826ء میں کاکوری میں پیدا ہوئے ۔ اپنے جد امجد مولوی حسین بخش شہید سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ بعد ازاں اپنے والد اور مولوی عبدالرحیم سے تحصیل علم کی ۔ وکالت کا امتحان کامیاب کر کے وکالت کو اپنا پیشہ بنایا۔ 24 اپریل 1905 کو مین پوری میں انتقال کیا ۔ انھوں نے ابتدا میں روایتی انداز میں شاعری کی پھر اپنی شاعری کا رخ مدح رسول کی طرف موڑ دیا ۔ قصیدہ مدیح خیر المرسلین ان کا شاہکار ہے ۔ فکری اور فنی لحاظ سے یہ قصیدہ انتہائی خوب صورت اور جاندار ہے ۔ ہم نے اس اکائی میں ان کے اس قصیدے کی لفظی اور معنوی خوبیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ آپ کے مطالعے کے لیے اس قصیدے کو پیش کیا گیا ہے اورقصیدے کے دس اشعار کی تشریح کی گئی ہے۔
0 تبصرے