چند اشعار کی تشریح
یوں کرسیِ زَر پر ہے ، تری جَلوہ نمائی
جس طرح سے مصحف ہو سر رحل طلائی
رکھتا ہے تو وہ دست سخا ، سامنے جس کے
ہے بحر بھی کشتی بہ کف ، از بہر گدائی
ہر شعرِ غزل میں ترے معنی شفا ہیں
قربان غزل کے تری دیوانِ شفائی
پہلا شعر
یہ قصیدے کی مدح کا شعر ہے ۔ مدح قصیدہ کا اصل مقصد ہوتا ہے جسے فکر و تخیل اور صنائع بدائع سے زینت دی جاتی ہے ۔ مدح ، ممدوح کی خدمت میں خراج تحسین ہے ۔ یہ قصیدہ چوں کہ بادشاہ وقت کی تعریف میں ہے اس لیے اس میں جاہ و جلال کا تذکرہ بڑے تزک و احتشام سے کیا گیا ہے ۔ شاعر کہتا ہے تو اپنے تخت زریں ( کرسی زر ) پر جلوہ دے رہا ہے جیسے سونے کی رحل پر کوئی مقدس کتاب رکھی ہو ۔ اس شعر میں جہاں شاعر نے بادشاہ کی عظمت بیان کی ہے وہیں اس کے تقدس کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس قصیدے کی یہ تنہا تشبیہہ ہے ورنہ استعارات ہی سے قصیدے کو زینت بخشی ہے ۔
دوسرا شعر
مدح میں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ممدوح کے تمام اوصاف حمیدہ کا شاعر ذکر کرتا ہے ۔ اس شعر میں بادشاہ کے جود و سخا کی تعریف ہے ۔ کہتا ہے تیری سخاوت کا یہ حال ہے کہ بحر بھی اپنے ہاتھ میں کشتی لیے تیرے دربار میں سوال کر رہا ہے ۔ تجھ سے بھیک مانگ رہا۔ شاعر کا حسن تخیل یہاں کار فرما ہے ۔ وہ بادشاہ کی سخاوت کو بحر سے زیادہ سمجھتا ہے اسی لیے تو سمندر کشتی کا کشکول اپنے ہاتھ میں لیے بادشاہ سے سوال کر رہا ہے ۔
تیسرا شعر
اس شعر میں شاعر بہادر شاہ ظفر کی سخن سنجی کی داد دے رہا ہے ۔ ذوق استاد شاہ تھے ۔ انیس بیس برس کی عمر سے دربار مغلیہ سے وابستہ رہے ۔ بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے تو ذوق نے ایک معرکۃ الآرا قصیدہ لکھا اور ملک الشعرا مقرر ہوئے ۔ اس شعر میں استاد شاہ خود شاہ کی سخن گوئی کا مداح ہے۔ کہتا ہے تیرے دیوان کا ہر شعر علم و حکمت کا سر چشمہ ہے ۔ شفا ، بو علی سینا کا عربی زبان میں ایک مقالہ ہے۔ جس میں منطق ، طبیعیات ، ریاضیات اور الٰہیات کے چار ضخیم ابواب ہے۔ یہ ایک معلومات آفریں مشکل کتاب ہے۔ " شفا " کو شاعر کے تلمیح کے طور پر یہاں استمعال کیا ہے اور بادشاہ کے اشعار کو وقعت دینے ، ان کا مرتبہ بڑھانے کے لیے مبالغے سے کام لیتے ہوئے کہتا ہے کہ بادشاہ کے دیوان کا ہر شعر مشکل اور معلومات کا خزانہ ہے۔ اس لیے تیری غزل پر دیوان شفائی قربان ہے۔ حکیم شرف الدین شفائی فارسی کے بہت بڑے شاعر اور طبیب تھے ۔ ان کا دیوان ہزل ، غزل ، رباعی اور مثنوی پر مشتمل ہے ۔ صائب جیسے شاعر نے فنِ شعر میں شفائی کی بزرگی اور برتری کا لوہا مانا ہے ۔ مدح کا تقاضا ہے کہ شاعر ظفر کی غزل پر شفائی جیسے شاعر کا دیوان قربان کر رہا ہے ۔
بہادر شاہ ظفر کے زمانے کی دہلی کے ممتاز شعرا میں غالب مؤمن اور ذوق کے نام سر فہرست ہیں ۔ ذوق اپنے طرز کے با کمال شاعر تھے ۔ قصیدے میں سودا کے بعد ان ہی کا نام روشن نظر آتا ہے ۔ ذوق کے یہ قصائد تو فارسی کے مشہور قصیدہ نگار خاقانی ، انوری کے ہم پلہ نظر آتے ہیں ۔ انھوں نے کئی قصائد لکھے لیکن ان میں سے اکثر تلف ہوگئے جو پچ رہے وہ چوبیس ہیں۔ ان میں سے اکثر شاہان وقت کی تعریف میں ہیں۔ ذوق کے قصائد ، فن قصیدہ کے معیاروں پر پورے اترتے ہیں ۔ ذوق کے قصائد کی تشبیب ان کے علمی تبحر ، فن کارانہ صورت گری اور خوش ترکیبی کی مظہر ہے۔ ذوق کی گریز بڑی سیدھی سادی ہوتی ہے اکثر تو پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب تشبیب ختم ہوئی اور کیسے مدح شروع ہوئی یہ شاعر کا کمال ہے۔ مدح اور روایتی انداز میں ذوق نے ممدوح اور مدوح سے متعلق اشیا کی تعریف کی ہے ۔ عموماً مدح میں غلو کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔ غلو تو ذوق کے پاس بھی ہے مگر انداز میں اس قدر اعتدال ہے کہ یہ نا گوار نہیں گزرتا ۔ مدح کے بعد حسن طلب اور دعا پر قصیدہ ختم ہوتا ہے ۔ م ذوق کے قصائد میں حسن طلب یا مدعا کہیں نہیں ملتا ۔ ہمیشہ دعا پر قصیدہ ختم ہوتا ہے ۔
ذوق کے قصیدوں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے قصیدہ گوئی میں مختلف علوم سے مصطلحات ، تلمیحات ، تراکیب ، الفاظ کی ترتیب و تہذیب محاورے ، ضرب الامثال ، تشبیہہ و استعاروں کے استعمال سے قصائد کو با وقار بنایا ہے ۔ ان کے قصائد میں نغمگی اور روانی ہے۔ سنگلاخ زمینوں میں بھی قصائد کہے ہیں ۔اکثر قصائد کی بحریں مترنم اور رواں دواں ہیں ۔ ذوق کی علمیت ، ہمہ دانی اور لسانی ہمہ گیری ان کے قصائد کو دو آتشہ بنا دیتے ہیں ۔ فارسی اور عربی الفاظ قرآنی آیات و احادیث کے استعمال سے اپنے ممدوح کو معتبر و معزز بنادیا ہے ۔
0 تبصرے