اردو کا پہلا رباعی گو شاعر
Urdu ka pehla rubai go shayar
رباعی کی اثر انگیزی اور فارسی شعرا کے ہاں اس صنف سے دلچسپی نے دکن کے شعرا کو بھی راغب کیا کہ وہ دکنی یا قدیم اردو میں رباعی کہیں ۔ دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اردو میں بیشتر اصناف کا آغاز یہیں سے ہوا۔ دکنی رباعیوں میں زندگی کی رنگا رنگی اور جذبات کی عکاسی بھی ملتی ہے اور فارسی رباعی کی تقلید میں معرفت ، اخلاق اور صوفیانہ موضوعات بھی نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ پروفیسر سید جعفر لکھتی ہیں:
دکنی رباعیوں میں کہیں عشق کا ٹھاٹے مارتا سمندر ، کہیں حسن ازل کی جھلک ہے تو کہیں مجازی محبوب کے سولہ سنگھاروں کی صاعقہ پاشی ۔ کہیں رندانہ سی مستی کہیں پند و نصائح کہیں زندگی کے اعلی و ارفع مقاصد کی طرف اشارہ ہے تو کہیں مادی زندگی کی رعنائیوں میں ڈوب جانے کا رجحان ۔ کہیں عشقیہ اور شبابیاتی شاعری کا کیف و نکھار ہے تو کہیں خمریہ شاعری کا لطف اور زندگی کے جام کا آخری قطرہ پی لینے کی تمنا " ( دکنی رباعیاں صفحہ 36 )
UGC net urdu syllabus
اردو میں بھی پہلے رباعی گو شاعر کا تعین کرنا ایک مشکل امر ہے ۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے قلی قطب شاہ کو (973 ھ ۔ 1020 م 1565ء ۔ 1611ء) کو پہلا رباعی گو شاعر قرار دیا ہے ۔ ڈاکٹر زور نے کلیات قلی قطب شاہ کے مقدمے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ فیروز ، محمود اور ملا خیالی کا کلام تلف ہوگیا ہوگا اور ممکن ہے کہ ان کے کلام میں رباعیاں بھی رہی ہوں لیکن مواد کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان میں سے کسی کے سراولیت کا سہرا باندھنا ڈاکٹر زور نے مناسب نہ سمجھا ۔ انھوں نے وجہی اور محمد قلی قطب شاہ کی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہوئے مختلف دلائل پیش کیے اور محمد قلی کو پہلا رباعی گو شاعر قرار دیا۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے اپنا مقد مہ’’ اردو رباعیات ‘‘ 1957 ء میں لکھا تھا۔ اور نظر ثانی کے بعد 1963ء میں یہ مقالہ زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ لیکن 1966ء کی ڈاکٹر سیدہ جعفر کی تصنیف سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردو کے پہلے رباعی گو حضرت خواجہ بندہ نواز (721 ھ مطابق 1321 ء وفات 825 ھ مطابق 1421) ہیں۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے حضرت خواجہ بندہ نواز کی حسب ذیل رباعی اسٹیٹ لائبریری حیدرآباد کی ایک بیاض کے حوالے سے درج کی ہے۔
مشہود بہ حیرت ہو دگر ہیچ ہے واللہ
مرنے کے انگے مرکے ہو فانی فی اللہ
خناس کے وسواس سوں توں ہو پامال
لا حول ولا قوة الا بالله
اگر چہ خواجہ بندہ نواز کے نام سے منسوب تصانیف جیسے معراج العاشقین کے بارے میں بعد کے محقین نے یہ ثابت کیا ہے کہ تصنیف در اصل مخدوم شاہ حسینی کی ہے لیکن اس رباعی کے بارے میں کوئی حتمی بات سامنے نہیں آسکی ۔ اس لیے مندرجہ بالا رباعی کو اس وقت تک اولیت حاصل رہے گی جب تک کہ مزید تحقیق سے اس دعوے کو رد نہ کیا جائے ۔
0 تبصرے