Ad

ذوق کے قصیدوں کا اسلوب

 


ذوق کا اسلوب 

      یوں تو ذوق کے قصیدے اکثر و بیش تر مترنم بحروں میں ہیں ۔ ذیل میں دو قصیدوں کے مطلع درج کیے جاتے ہیں ان کا جواب نہیں : 

سحر جو گھر میں بہ شکل آ ئینہ تھا میں بیٹھا نزارو حیراں

تو اک پری چہرہ، حور طلعت، بہ شکل بلقیس، ماہ کنعاں

صبح سعادت، نور ارادت، تن بہ ریاضت، دل بہ تمنا

جلوۂ قدرت، عالم وحدت، چشم بصیرت، محو تماشا


ذوق نے سنگلاخ زمینوں میں بھی قصیدے کہے ہیں جیسے :

طرب افزا ہے وہ نو روز کا نارنجی رنگ

دیکھ کر بھاگے جسے رنج ، ہزاروں فرسنگ


ہے آج! یوں خوش نما، نور سحر، رنگ شفق

پر روپے کس خورشید کا نور سحر ، رنگ شفق

ذوق کے قصائد

    ردیف و قوانی کے استمعال میں بھی ہوشداری سے کام لیا ہے ۔ چندے قصائد میں قوانی کی غربت کا احساس ہوتا ہے جیسے قلمتان ، مہراق چقماق، لق لق ، چق چق ، عطاس ، جمیر ، 

       ذوق کو کئی علوم میں مہارت حاصل تھی ، اپنے قصائد میں انہوں نے تصوف ، فلسفہ ، منطق ، طب ، فلکیات ، رمل ، نجوم ، موسیقی اور مختلف زبانوں سے اپنی واقفیت کا اظہار کیا ہے۔ ایک قصیدے میں فارسی، ترکی اور رومی میں مختلف مہینوں کے ناموں کو جس طرح قلم بند کیا ہے ۔اس سے ان کی ان زبانوں سے واقفیت کا ثبوت ملتا ہے۔ ہندوستانی موسیقی کا انحصار سات سروں پر ہے جن کے ناموں مدھم ، پنچم ، کھرج، گندھار ، دھیوت، اور نکھار وغیرہ کو ایک قصیدے میں نظم کیا ہے ۔ ذوق نے مختلف علوم کی اصطلاحیں اپنے تقریبا تمام قصائد میں رقم کی ہیں۔ فارسی کے مشہور قصیدہ گو شاعر خاقانی بھی اسی طرح کئی علوم اور زبانوں پر قدرت رکھتا تھا ۔ اس لیے ذوق کو خاقانی ہند کا جو خطاب دیا گیا ۔ وہ کئی اعتبار سے انھیں زیب دیتا ہے۔ 

     قصیدہ ہماری کلاسیکی شاعری کی اہم صنف ہے جہاں اس کے کچھ فنی قیود ہیں وہیں معنوی تقاضے بھی ہیں ۔ قصیدے میں شوکت الفاظ، حسن تشبیہہ اور لطیف استعاروں کا سامان ہوتا ہے ۔ لفظوں کا طنطنہ و طمطراق ایک طرح سے سطوت شاہی سے ہم آہنگ ہوتا ہے ۔ حسن تشہید صناعی خیال اور تازگی فکر نے ان کے قصائد کو کیف و اثر سے معمور کر دیا ہے ۔ مثال کے طور پر ایسے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں :


چشم سرمست مئے ناز میں کاجل پھیلا

لب مئے گوں پہ مسی کی پڑی پھیکی رنگت


پھر بہار چمن عمر میں دلگیر ہے کیوں

سیر کر سیر کہ ہے فرصت گل گشت قلیل


ذوق کی تشبیہات و استعارات کا جادو تقریبا ہر قصیدے میں کار فرما نظر آتا ہے ۔ مندرجہ ذیل قصیدے میں تو یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔

ہوا ہے مدرسہ یہ بزم گاہ عیش و نشاط 

کہ شمس بازغہ کی جا پڑی ہے بدر منیر


اس قصیدے میں ذوق کی صنعت کارانہ مشاقی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

ذوق کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات

ذوق کے قصیدے میں نغمگی، ترنم اور روانی ہے ۔ تراکیب کی دروبست، آہنگ کا جادو ، الفاظ کی معنویت اور شان و شوکت زبان کی شستگی اور صفائی کی وجہ سے ذوق کے قصائد میں ایک قار پیدا ہوگیا ہے ۔ ذوق کے قصائد میں جہاں علمیت اور تخیل پسندی ہے ۔ پر کاری اور فن کاری ہے وہیں اثر اور شیرینی ، سادگی و سلاست بھی ہے جیسے یہ اشعار دیکھیے :

دی ہے مسجد میں، مؤذن نے اذاں بہر نماز

باوضو ہو کے ، نمازی نے ہے ، باندھی نیت


ہوئی بت خانے سے ناقوس کی پیدا آواز

چلے جمنا کو برہمن کوئی لے کر مورت


ماہ کہنے کے لیے ہے نہ کہ گہنے کے لیے

تیرے گہنے کا کہوں کیا اُسے زیبا گوہر


رزق تو درخور خواہش ہے پہنچثا سب کو 

مرغ کو دانہ ملا ، ہنس نے، پایا گوہر


ذوق کے قصائد پر فارسی کے نامور قصیدہ نگار انوری و خاقانی کا اثر نمایاں ہے بلکہ بعض قصائد تو ذوق نے ان شعرا کے قصیدوں کی زمینوں میں لکھے ہیں جیسے انوری کے قصیدے :

" برسن آمدۂ خورشید ، نیک واں شب گیر "


ذوق نے اپنا مشہور قصیدہ :

" زہے نشاط، اگر کیجئے اسے تحریر " لکھا ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے