ذوق کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات
قصیدہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہو، زبان پر قدرت حاصل ہو، ایک سے زیادہ زبانوں پر عبور ہو، خیالات میں بلندی، فکر میں ندرت ہو، جس سے قصیدہ کا ہر حصہ شاعر کے کمال فن کا مظہر ہوتا ہے ۔
ذوق کی تشبیبیں
قصیدے کا آغاز تشبب سے ہوتا ہے جسے نسیب اور مطلع بھی کہتے ہیں۔ یہ قصیدے کی جان ہوتی ہے۔ تشبب کا موضوع جتنا اچھوتا ہوتا ہے قصیدہ بھی اتنا ہی دلکش ہوتا ہے ۔ تشبیب کے مضامین میں ممدوح کی حیثیت و مرتبے کی مناسبت بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ ذوق کے قصائد کا سب سے دلکش حصہ ان کی تشبیوں کا ہے جن سے ذوق کے کمال فن اور علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تشبب میں ان کے موضوعات مختلف اور متنوع ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے جشن صحت کے موقع پر کہے گئے قصیدے میں تشبیب کے ستائیس (27 ) اشعار ہیں ۔ ہوائے بہار کی مسیحا نفسی کی مختلف انداز سے توضیح و تعبیر کی ہے۔ عیدین کی تقریبات پر کہے ہوۓ قصائد کی تشبیبیں عیش و نشاط سے معمور ہیں ۔ بعض تشبیبوں میں اخلاقی، حکیمانہ و ناصحانہ مضامین ہیں تو بعض میں زمانے کی نا اہلی کا شکوہ ہے۔
ذوق کے قصیدوں میں گریز
ذوق نے جتنا زور تشبیب پر صرف کیا ہے اتنا ہی زور انھوں نے دوسرے اجزا پر بھی صرف کیا ہے ۔ گریز قصیدے کی ایک اہم کڑی ہے جو تشبیب اور مدح کو جوڑتی ہے ۔ تشبیب کا مزاج مدح سے مختلف ہوتا ہے ۔ شاعر تشبیب کو مدح سے مربوط کرنے کے لیے بات میں سے بات اس طرح پیدا کرتا ہے کہ کہیں تسلسل میں خلل پیدا ہونے نہیں پاتا ۔اس مقام پر ہمیں شاعر کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوق نے گریز میں اپنی فن کاری اور قوت تخیل اور پرواز فکر کا ثبوت دیا ہے ۔ ایک قصیدہ جو عید کے موقع پر کہا گیا ہے اس کا مطلع ہے :
ہے وہ جاں دار دیے نافع اعضا و حواس
کہ دل مردہ ہو زندہ تن بے حس حساس
اس قصیدے کے ابتدائی 16 اشعار میں شراب کی مدح و ستائش کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے بعد شاعر کو بادشاہ کی دین داری اور پرہیز گاری کا خیال آ تا ہے اور وہ بڑے فن کارانہ انداز میں پہلو بدل کر گریز کرتا ہے ۔
میں یہ کہتا ہی تھا جو دل نے مرے مجھ سے کہا
توبہ کر توبہ ، نہ کر اتنی زیادہ بکواس
پھر بادشاہ کی مدح کی طرف رجوع ہو جاتا ہے ۔ بعض قصائد میں گریز سیدھی سادی ہے ۔ ایک قصیدے میں خوشی کی تجسیم کرتے ہوئے اسکی سراپا نگاری کرتے ہیں ۔ پھر اپنی ہمہ دانی اور علمی تبحر کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ اتنے میں انھیں نیند آ جاتی ہے ۔ اس طرح گریز کرتے ہیں :
لگ گئی آ نکھ مری دیکھتا کیا خواب میں ہوں
کہ مجسم نظر آتی ہے نوید بہجت
کبھی کبھی گریز میں مکالماتی انداز اختیار کر لیتے ہیں ۔
مدح
مدح قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ مدح کا ممدوح کی حیثیت و مرتبہ سے مناسبت رکھنا ضروری ہوتا ہے یعنی مدح میں حفظ مراتب پر زور دیا جاتا ہے ۔ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ممدوح کی نفسیات سے آ گاہ ہو، مزاج آشنا ہو ذوق نے مدح میں ممدوح کے جود و سخا، علم دوستی، عدل و انصاف، مذہبی رجحان، خدا ترسی، شجاعت اور عقل و حکمت کی تعریف کی ہے ۔ ممدوح کے ساتھ اس کی فوج، ساز و سامان تیر و تلوار گھوڑے، ہاتھی، مطبخ، در لبار کی رونق جاہ و حشمت کی تعریف تقریبا ہر قصیدے میں نہایت پر شکوہ انداز سے کی ہے۔ مدح میں عموماً مبالغے کا پہلو شامل رہتا ہے ۔ ذوق کی مدح بھی اس سے خالی نہیں ۔ بادشاہ کی مدح میں دو شعر دیکھیے :
اے شہہ عالم ، در ہمہ عالم ، عالی اعلیٰ والی والا
لب پہ ستائش ، ول بہ نیائش جلوه طراز عرش معلی
روح مجسم ، عقل مکرم ، نفس مقدس ، جسم مطہر
باتن صافی ، جانِ موافی ، پرده بہ دنیا جلوه بہ عقبی
مدعا اور دعا
قصیدے میں عرض مدعا اور دعا کا حصہ مختصر ہوتا ہے ۔ یہ بھی قصیدہ نگار کے لیے ایک دشوار مرحلہ ہے۔ شاعر کو یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ عرض مدعا ممدوح کی طبیعت پر گراں نہ گزرے ۔ ذوق نے یہاں بڑا روایتی انداز اختیار کیا ہے ۔ ذوق نے کسی بھی قصیدے میں عرض مدعا نہیں کیا ہے۔ ان کا یہ مقصد بھی نہیں ہوتا تھا جیسا کہ غالب نے روا رکھا ہے۔ غالب کے یہاں حسن طلب قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ وہ مانگتے ہیں اور اور نت نئے طریقے سے مانگتے ہیں ۔ ذوق نے اپنے قصائد میں تعلٰی کبھی نہیں کی جیسا کہ اکثر قصیدہ نگار اپنا قصیدہ تعلی پر ختم کرتے ہیں۔
0 تبصرے