Ad

پہلی جنگ آزادی کے بعد اردو رباعی

 

پہلی جنگ آزادی کے بعد اردو رباعی

پہلی جنگ آزادی کے بعد اردو رباعی

Pehli jung e aazadi ke baad urdu rubai

     1857 ء میں مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیا جو آخری مغلیہ فرماں رواں بہادر شاہ ظفر جلا وطن کر دیے گئے ہندوستانی معاشرے میں انگریزی کلچر کا غلبہ ہونے لگا۔ تعلیم کے میدان میں ترقی کی راہیں وا ہونے لگیں اور زمانے کی کروٹوں سے بے حال ہندوستانیوں وطن پرستی کا جذبہ بیدار ہونے لگا۔ مغربی شعرا کا اثر اردو شاعری پر بھی پڑا۔ چنانچہ انجمن پنجاب کے زیر اہتمام مشاعروں جگہ مناظمے منعقد ہونے لگے۔ محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی اردو کے ایسے شاعر ہیں جنھوں نے ادب میں نئی راہیں تلاش کیں اور مغربی فکر سے اردو کے دامن کو مالا مال کرنے کی طرف توجہ دلائی ۔ اردو شاعری اس دور میں اصلاح معاشرہ اور فطرت پسندی کی طرف رغبت کا اہم فریضہ انجام دیا ہے ۔


الطاف حسین حالی

Maulana Altaf Hussain Hali

     مولانا الطاف حسین حالی ( 1837ء سے 1914 ) کو نثر اور نظم دونوں میں کمال حاصل تھا۔ انھیں اردو تنقید کا باوا آدم کہا جا تا ہے اور آج بھی ان کتاب " مقدمہ شعر و شاعری " اردو تنقید میں سر فہرست رکھی جاتی ہے۔ حالی نے سوانح نگاری میں بھی شہرت حاصل کی ۔ ان تحریروں اور خاص کر شعری تخلیقات میں اصلاحی پہلو نمایاں ہے۔ ان کی مشہور مسدس " مد و جزر اسلام " اردو دانوں کے ہر طبقے میں یکساں طور پر مقبول تھی۔ حالی نے غزلیں بھی کہیں اور رباعیاں بھی۔ ان کی رباعیوں میں بھی اصلاحی پہلو ، قوم کی فلاح و بہبود کا جذبہ اور سماج کی عکاسی نظر آتی ہے۔ ان کی دو رباعیاں درج کی جارہی ہے :

عشرت کا ثمر تلخ سدا ہوتا ہے

ہر قہقہہ پیغام بکا ہوتا ہے

جس قوم کو ، عیش دوست، پاتا ہوں میں

کہتا ہوں کہ، اب دیکھیے ! کیا ہوتا ہے


اے علم کیا ہے تو نے ملکوں کو نہال

غائب ہوا، تو جہاں سے واں، آیا زوال

ان پر ہوئے غیب کے خزانے مفتوح

جن قوموں نے ٹھہرایا تجھے راس المال


اکبر الہ آبادی

Akbar allahabadi

     اکبر الہ آبادی ( 1846 ء سے 1921 ء ) حالانکہ خود ڈپٹی کلکٹر رہ چکے تھے اور اپنے فرزند کو اعلی تعلیم کے لیے لندن روانہ کیا تھا۔ لیکن دل سے وہ نئے زمانے کی تبدیلیوں کو پسند نہیں۔ کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مغربی تہذیب کے اثرات سے مشرقی تہذیب گمراہی اور بے دینی کی طرف جارہی ہے۔ اپنے ان نظریات کو پیش کرنے کے لیے اکبر نے طنز و مزاح کا پیرایہ اختیار کیا۔ ان کی ظرافت میں مسکراہٹ کے ساتھ درد بھی کروٹیں لیتا نظر آتا ہے۔ انہوں نے کئی رباعیاں بھی لکھیں اور اپنے دور کی سماجی تبدیلیوں پر نشتر لگاتے ہوئے قوم کو مشرقی اقدار سے کنارہ کشی کے رجحان سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی دو رباعیاں درج ہیں :

تھے کیک کی فکر میں، سو روٹی بھی گئی

چاہتے تھے بڑی شئے سو چھوٹی بھی گئی

واعظ کی نصیحت نہ مانی آخر

پتلون کی تاک میں لنگوٹی بھی گئی


اونچا اپنی نیت کا زینہ رکھنا

احباب سے صاف اپنا سینہ رکھنا

غصہ آنا تو نیچرل ہے اکبر

لیکن ہے شدید عیب کینہ رکھنا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے