اردو کے مرثیہ گو شعرا کی رباعیاں
Urdu ke marsiya go shora ki rubai
میر بر علی انیس
میر ببر علی انیس (1216 - 1291 ھ م 1801 ۔ 1874ء) کی شہرت ان کی مرثیوں کی وجہ سے ہے ۔ لیکن وہ اردو کے رباعی گو شعرا میں بھی ممتاز مقام کے حامل ہیں ۔ان کی رباعیوں کو کئی لوگوں نے مرتب کر کے شائع کیا ہے ۔ انیس کے اسلوب کی خصوصیات سلاست، ندرت خیال اور فصاحت بیان ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں بھی یہ خصوصیات نمایاں ہیں ۔ حمد، نعت، منقبت، اخلاق، فلسفہ غرض ہر طرح کا موضوع ان کے ہاں بڑی خوبی سے پیش کیا گیا ہے ۔ انیس کی رثائی رباعیاں بھی شہرت رکھتی ہیں ۔ انھوں نے رباعی کے پیرائے میں مرثیہ کا حق ادا کیا ہے ۔ انیس کی دو رباعیاں پیش کی جارہی ہیں۔
گلشن میں صبا کو، جستجو تیری ہے
بلبل کی زباں پر، گفتگو تیری ہے
،ہر رنگ میں جلوہ ہے، تری قدرت کا
جس پھول کو سونگھتا ہوں، بو تیری ہے
ان کی رثائی رباعی دیکھیے :
رومال ہے اشکوں کو بھگونے کے لیے
یہ راتیں یہ دن نہیں سونے کے لیے
ہنسنے کے لیے تو سال بھر ہے یارو
دس روز محرم کے ہیں، رونے کے لیے
مرزا سلامت علی دبیر
مرزا سلامت علی دبیر (1218 - 1292 ھ م 1803 ۔ 1875ء) بھی مرثیہ گویوں میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ انھوں نے بھی سینکڑوں کی تعداد میں رباعیاں لکھیں ۔ ان کی رباعیات کا ایک مجموعہ " رباعیات مرزا دبیر مرحوم " شائع ہو چکا ہے۔ شوکت لفظی دبیر کے اسلوب کی خصوصیت ہے ۔ ان کی دو رباعیاں یہاں درج کی جارہی ہیں :
آنکھیں ہیں غم شاہ میں رونے کے لیے
دل حق نے دیا ملول ہونے کے لیے
دھوتے ہیں ہر اک شئے کو پانی سے مگر
آنسو ہیں فقط دھونے کے لیے
ادنی سے جو سر جھکائے، اعلی وہ ہے
جو خلق سے، بہرہ ور ہے، دریا وہ ہے
کیا خوب دلیل ہے یہ ، خوبی کی دبیر
سمجھے جو برا آپ کو، اچھا وہ ہے
انیس اور دبیر کے علاوہ عشق لکھنوی، تعشق لکھنوی، اوج لکھنوی ( صاحبزادہ مرزا دبیر ) اور دیگر مرثیہ گو شعرا نے رباعیاں لکھی ہیں جن کی کثیر تعداد ہے۔ مرثیہ گو شعرائے متاخرین میں میر انیس کے چھوٹے بھائی میر مونس، انیس کے صاحبزادے میر خورشید علی نفیس، پیارے صاحب رشید، عارف، میر، انس، عروج، ندیم، مانوس، واقف، واصف، مودب لکھنوی، اور کئی دوسرے شعرا نے رباعیاں لکھیں ۔ اصل میں رواج یہ تھا کہ منبر پر چڑھنے سے پہلے چند رباعیاں پیش کی جاتی تھیں اس لیے مرثیہ گو شعرا کے ہاں رباعیوں کی کثیر تعداد ملتی ہے۔ بخوف طوالت یہاں ان سے گریز کیا جار ہا ہے۔
0 تبصرے