Mohammed quli qutub shah ki rubaiyaat tashreeh o khulasa
متصوفانہ رباعیات
قلی کے یہاں اگر چہ ایسی رباعیاں زیادہ ہیں جن کا تعلق عشق مجازی سے ہے۔ دو رباعیات ایسی ملتی ہیں جن میں عشق حقیقی کا پر تو جھلکتا ہے۔ ڈاکٹر زور نے قلی کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
قلی قطب شاہ نے عشق و عاشقی کے معاملے میں جہاں شاعری میں کمال حاصل کیا۔ ساتھ ہی تصوف کا بھی شوق پیدا کر لیا۔ اس کی فطری آزاد روی اور ظاہر پرستی کے تنفر نے اس کو واقعی ایک پختہ کار صوفی مشرب بنادیا تھا۔ سمجھا جاتا ہے کہ عشق مجازی، عشق حقیقی کا زینہ ہے اگر یہ سچ ہے تو ہمارے خیال میں سلطان محمد قلی سب سے زیادہ عشق حقیقی کے مراتب حاصل کرنے کا مستحق تھا کیوں کہ اس کی ساری زندگی عشق مجازی کی رنگ رلیوں اور طے منازل میں گزری " اس بحث میں الجھے بغیر آیا قلی عشق مجازی کے زینے سے عشق حقیقی کی رفعتوں تک پہنچا تھا یا نہیں ہم یہاں اس کی رباعیات پیش کر رہے ہیں جن میں متصوفانہ خیالات کا عکس ملتا ہے۔
تج حسن تھے تازہ اہے سدا حسن و جمال
تج یاد کی مستی، اہے عشق کوں حال
تو ایک ہے تج سا نہیں دو جا کوئی
کیوں پاوے، جگت صفحہ میں، کوئی تیرا مثال
جے کوئی جو عقل بات سنے آتے ہیں
ہور جہل کی بات میں، جکوئی جاتے ہیں
جیتا جو خلاف ہے انن دونوں میں
دھنڈ کر جو دیکھ تو سب تجے پاتے ہیں
مذہبی رباعیات
عشق اور مذہب قلی کی شاعری کے دو اہم موضوعات ہیں۔ اس کا جھکاؤ ایک طرف مذہب کی طرف ہے تو دوسری طرف عشق و محبت کی جانب ۔ وہ خدا کے حضور میں بخشش کی دعامانگتا ہے، اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرتا ہے۔ وہ دین و دنیا میں سرخ رو رہنا چاہتا ہے
خوبی و بدی سب کے بوجھنہار سو توں
انصاف ہر ایکس کا دیونہار سو توں
منج گر چہ چھوٹک نئیں ہے گنہ ٹنتھ سب تے
میں سو ہوں چھوٹنہار چھوڑنہار سو توں
اللہ غفار ہے۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ " چھوٹنے والا میں ہوں اور چھوڑنے والا تو ہے " ایک رباعی میں وہ اس طرح دعا مانگتا ہے :
اے بار خدا اپنے درویش کوں بخش
مج کوں سو محمد علی کے کیش سوں بخش
دشمن کوں توں توڑ دوستاں کوں توں نواز
دشمن کو نکر رحم سبھی خویش ہوں بخش
نعتیہ رباعیات
قلی نے اپنی دو رباعیوں میں حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ ایک ر سعی دیکھیے :
تیرا شرف ادراک میں تیں ٹاک آیا
جم تیرا سبق نعبد ایّاک آیا
تیرا سو نشاں مصحفِ پاک آیا
لولاک کما خلقت الافلاک آیا
منقبتی رباعیات
محمد قلی شیعہ تھا۔ اس نے گولکنڈہ میں پہلی بار دوازدہ ائمہ معصومین کے نام کا علم ایستادہ کیا جو اب تک موجود ہے اور حسینی علم کے نام سے مشہور ہے ۔ آٹھ رباعیوں میں اس نے حضرت علی سے اپنی والہانہ عقیدت کا اظہار کیا ہے :
میرے سوگنہ گانٹھ کھولنہار علی
ہر مشکلاں میں ہے مرے آدھار علی
ہر ٹھار مددگار ہو آپ پیار سیتے
دیتے ہیں منجے فتح کا تروار علی
اخلاقی رباعیات
پند و موعظت شروع ہی سے رباعی کا موضوع رہا ہے۔ فارسی رباعیات کا جو ذخیرہ ملتا ہے اس میں زیادہ حصہ اخلاقی رباعیات کا ہے۔ قلی نے ایک رباعی میں زاہد کی ظاہر داری کا پردہ چاک کیا ہے۔ اس نے شاہد کے ظاہر از ہر پر طنز کیا ہے۔ اس کی رہا کاری پر وار کیا ہے۔ وہ زاہد کی ظاہر داری کو بیکار ٹھہراتے ہوئے اس کی خام کاری سے رندوں کی پختہ کاری کو بدرجہ بہتر سمجھتا ہے :
کب لگے اچھے لب پہ زہد ہور دل میں جام
اس پاپ سوں بھریا سو زہد منج کا کام
مد کے مدے لیا و جو صفاتیں ہیں تمام
یک پختہ برابر نہیں ہے سولک خام
خمریاتی رباعیات
محمد قلی قطب طبعا بڑا عیش پسند تھا۔ رندی اور حسن پرستی اس کی فطرت میں داخل تھی۔ شب ا اور شراب اس کی شاعری میں جادو جگاتے ہیں۔ اس کے دربار میں حسینوں کا جمگھٹا ہوتا، شراب کے دور چلتے اور وہ ان پر کیف لمحوں کو شعر میں کامیابی سے ڈھالتا ہے۔ اسے شراب کی ہر بوند نگین سلیمانی ہے مستی کے ملک کا بادشاہ ہے۔ اس کی خمریاتی رباعیات میں عجب کیف اور سرشاری کا احساس ہوتا ہے۔ اس نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے وہ اسکی فطرت کے بالکل مطابق ہیں :
جس ٹھار مئے لعل پھرے دور پہ دور
اس ٹھار مرے من کو نبھاوے کچ اور
جے کوئی جو مستاں ہیں مد پیالے کے
ہور طور میں آیا ہے دیکھت مد کا طور
مستی کے ملک میں ہے جہانبانی منجے
خوباں کو دیکھن میں ہے مسلمانی منجے
خمار کا خمخانہ اہے اٹھاؤں مرا
ہر مد کا سو بُند نگیں سلیمانی منجے
اس جائزے سے آپ کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں ہوگی کہ محمد قلی قطب شاہ ایک اچھا رباعی نگار تھا۔ اس کے یہاں عشقیہ رباعیاں بھی ہیں، مذہبی اور اخلاقی رباعیاں ہیں، خمریاتی رباعیاں بھی ہیں ۔ اس نے 38 رباعیاں کہی ہیں ۔ اگر چہ یہ کمیت میں کم ہیں لیکن کیفیت میں بڑی وقیع ہیں ۔ان میں رنگینی بھی ہے، شگفتگی اور سرشاری بھی ۔ اس کی رباعیوں میں تنوع ہے ۔ اس نے اپنے جذبات اور خیالات کی عکاسی بہتر طریقے سے کی ہے اس لیے ان میں تازگی اور دلفریبی ہے ، تاثیر و حسن ہے ۔ وہ لفظوں کی رعایت سے بھی حسن پیدا کرتا ہے اور لفظوں کی تکرار سے بھی ۔ اس نے رباعیات کہتے ہوۓ فنی تقاضوں کو ملحوظ رکھا اور کامیاب رباعیاں کہی ہیں ۔
قلی قطب شاہ کی رباعیات
ہے پھول کا ہنگام مد سوں باراں حاضر
پھولوں کے نمن سارے ہیں یاراں حاضر
اس وقت پہ کیوں توبہ کیا جائے منجے
توبہ شکنان ، ہور نگاراں حاضر
تج حسن تھے تازہ ہے سدا حسن و جمال
تج یاد کی مستی رہے عشق کوں ، حال
توں ایک ہے تج سا نہیں دو جا ، کوئی
کیوں پاوے جگت صفحے میں تیرا کوئی مثال
تج روپ بنا ، میری نظر میں ، سو نہ آئے
تج کوچے میں ، بن منج کوں ، گزر کرنے نہ بھائے
تج دور میں نیند ، سب کوں خوش آئے ولے
منج نین منے نیند، سو یک پل نہ، سمائے
اشعار کی تشریح و خلاصہ
ہے پھول کا ہنگام، مد سوں باراں حاضر
پھولوں کے نمن ، سارے ہیں یاراں حاضر
اس وقت پہ کیوں، توبہ کیا جائے منجے
توبہ شکنان ، ہور نگاراں حاضر
بہار کا موسم ہے اور بارش ہورہی ہے۔ سارے احباب پھولوں کی مانند حاضر ہیں۔ اس وقت میں کیسے توبہ کر سکتا ہوں جب کہ یہاں توبہ شکن محبوبائیں اور حسینائیں موجود ہیں۔
UGC net urdu syllabus
خلاصہ
اس اکائی میں ہم نے آپ کو محمد قلی قطب شاہ کی رباعی گوئی سے واقف کرایا۔ محمد قلی قطب شاہ ، قطب شاہی سلطنت کا پانچواں فرمان رواں تھا۔ وہ بڑا علم دوست اور ادب نواز بادشاہ تھا۔ وہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کا کلیات اس کے عہد کی منظوم تاریخ ہے۔ اس نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ رباعیات کی طرف بھی خصوصی توجہ دی۔ رباعیات میں حمد، نعت، منقبت، تصوف و اخلاق، معاملات حسن و عشق اور خمریات کو پیش کیا۔ وہ ایک با کمال رباعی گو ہے۔ اس نے رباعیات میں مختلف مضامین کو بڑی خوبی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ اس نے ا نتخاب الفاظ اور ترتیبِ بیاں کا بھی خاص خیال رکھا ہے۔
0 تبصرے