Ad

میر انیس کی رباعی گوئی


Meer Anees ki rubai goyi


میر انیس کی رباعی گوئی

Meer Anees ki rubai goyi
میر انیس اردو کے سب سے بڑے مرثیہ نگار تھے۔ انھوں نے مرثیہ نگاری کے ساتھ ساتھ رباعی پر بھی توجہ کی ۔ان سے پہلے کسی بھی شاعر نے کثیر موضوعات پر رباعیاں نہیں کہی تھیں ۔ انیس کے پیش رووں میں خود ان کے دادا میر غلام حسین حسن دہلوی نے رباعی گوئی کا اہتمام کیا ۔ ان کے علاوہ متوصفانہ مضامین کو رباعی میں پیش کر نے کا سہرا خواجہ میر درد کے سر جاتا ہے ۔ انیس نے کم و بیش چھ سو رباعیاں کہی ہیں ۔ ان میں وہ تمام موضوعات بھی مل جاتے ہیں جن کو اب تک رباعی گو شعرا نظم کرتے آئے تھے مگر انھوں نے خمریہ رباعیات نہیں کہیں البتہ رثائی رباعیوں کا التزام رکھا۔ رثانی رباعیاں اگر چہ کہ انیس سے پہلے میر ، میر حسن اور مومن وغیرہ کے ہاں ملتی ہیں لیکن انیس نے اس موضوع کو بہ طور خاص برتا سید محمد عباسی نے ’’مجموعہ رباعیات انیسں‘‘ میں ان کی رباعیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ (الف ) مذہبیات جن میں حمد ، نعت ، منقبت ، معتقدات اور مراثی شامل ہیں ( ب ) اخلاقیات ( ج ) ذاتیات لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ان کی کل رباعیاں مذہبیات ہی کے تحت میں آتی ہیں ۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے اس تقسیم کے قطع نظر مختلف موضوعات پر گفتگو کی خاطر یہ چند ایک عنوانات مقرر کیے جیسے مذہبی رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، سماجی رباعیات اور سماجی رباعیات اور ذاتی رباعیات وغیرہ۔
میر انیس نے مذہبی رباعیوں میں اعتقادات کی فضا کو مجروح نہیں کیا جب کہ ان سے پہلے حاتم و ہدایت وغیرہ نے شیعہ اور سنی کے اختلاف کو ظاہر کرنے میں پس و پیش نہ کیا۔ مومن کے ہاں مسلک اہل حدیث سے شیفتگی ملے گی لیکن انیس کے یہاں جہاں بھی اعتقادی مسائل آۓ وہ اختلافی امور سے گریزاں رہے۔ علی جوادزیدی کے الفاظ میں :'

و کبھی مطاعن کے قریب نہیں جاتے ۔مومن کے بر عکس وہ  متکلمانہ فضا پیدا ہونے نہیں دیتے اور خصوص مذہبی عقائد  اظہار بھی مثبت اور معروضی انداز سے کرتے ہیں ۔ جس معاشرے میں مذاہب کی کثرت اور اعتقادات میں اختلاف ہو وہاں اتنی احتیاط ضروری ہے ۔ انیس کے اندر کافن کا راس خط فاصل کو ہمیشہ نظر میں رکھتا ہے ۔‘‘
(رباعیات انیس صفحہ 55 )

میرانیس کی رباعیوں میں خود کلامی کی فضا ملتی ہے ۔ وہ خارجی حقائق کو کسی نہ کسی لحاظ سے داخلی بنا لیتے ہیں ۔ مختلف موضوعات کی مناسبت سے لفظیات استعمال کرتے ہیں ۔ وہ اپنی رباعیوں میں لہجے کی ہمواری اور خیال کی سبک روی سے قاری یا سامع کو متوجہ کر لیتے ہیں ۔انیس کے اس انداز بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ علی جواد زیدی لکھتے ہیں:

’’ وہ ایک لمحے کے لیے بھی اخلاقی مقصد و اقدار کا دامن چھوڑ نے کے روادار نہیں ہیں ۔اس کے لیے وہ دل سے دل تک منتقل کر نے والے لہجے کو ترجیح دیتے ہیں اور دعوت و موعظت کے عامیانہ رویّے سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں ۔ تہذیب و توازن کا مسلسل عمل ان کی رباعیوں ، سلاموں اور مرثیوں میں یکساں طور سے جاری و ساری نظر آتا ہے ۔ توازن و تہذیب کی یہی مسلسل تلاش بکھری ہوئی کثرتِ مضامین میں وحدت تاثر کا رنگ بھی اختیار کرتی ہے اور ان کے الفاظ کو ایک کھنک اور نئی چمک دمک بھی عطا کرتی ہے ۔ (رباعیات انیس ص57)

ذیل میں انیس کی کہی ہوئی رباعیات کا مختلف موضوعات کے تحت اجمالی تذکرہ کیا جا تا ہے ۔

mir anees ki halat zindagi in urdu

مذهبی رباعیات :

Mazhabi rubaiyaat 

انیس نے بہت سی رباعیاں حمد، نعت، منقبت خصوصاً اہل بیت اطہار کے بارے میں کہی ہیں ۔ان رباعیوں میں صدق دلی، والہانہ محبت اور گہری عقیدت کا اظہار ملتا ہے ۔ حمدیہ رباعیوں میں چند خالص متصوفانہ مضامین معرفت و حقیقت وغیرہ سے مملو ہیں اور چند صفات باری تعالی جیسے رزاقی ، ستاری ، غفاری ، رحمت ، عدل ، جود و کرم ، مغفرت سے متعلق ہیں:


گلشن میں صبا کو جستجو تیری ہے
بلبل کی زباں پر گفتگو تیری ہے

ہر رنگ میں جلوہ ہے ، تری قدرت کا
جس پھول کو سونگھتا ہوں ، بو تیری ہے

پتلی کی طرح، نظر سے مستور ہے تو
آنکھیں جسے ڈھونڈھتی ہیں، وہ نور ہے تو
قربت رگ جاں سے اور پھر اس پر یہ بُعد
اللہ اللہ کس قدر دور ہے تو

دولت کی ہوس ، نہ طمع مال کی ہے
خواہش منصب کی ہے نہ اقبال کی ہے
ہے ذات تری جواد و غفار و غنی
امید تجھی سے ترے افضال کی ہے

نعت رسول و منقبت علی کرم اللہ وجہ و شہید کربلا امام حسین کا انداز دیکھیے ۔

دنیا میں محمد سا شہنشاہ نہیں
کس راز سے خالق کے وہ آگاہ نہیں
باریک ہے ذکر قرب معراج انیس
خاموش کے ہاں سخن کو بھی راہ نہیں

دیں داروں نے امن ، کفر و شرک سے پایا
کعبے نے شرف ایسے گہر سے پایا
ہاتھوں پہ علی کو لے کے احمد نے کہا
یہ در نجف، خدا کے گھر سے پایا

یکتا گہر قلزم سرمد ہے حسین
سردار امم مثل محمد ہے حسین
جب سر کو قدم کیا تو طے کی رہِ عشق
حقا کہ شہیدوں میں سر آمد ہے حسین


رثائی رباعیات کا اپنا ایک الگ انداز ہے ۔ سید محمد عباس نے ایسی رباعیات کو " معتقدات " کا نام دیا ہے جن کا راست تعلق انیس کے اعتقادات سے ہے۔ ان رباعیوں میں زیارت کربلا کا شوق نجف کے فضائل ، عزاداری کی اہمیت ، زائرین و شرکائے مجالس کی محبت وعقیدت کا بیان بہ قول سلام سندیلوی یہ موضوع میر انیس کی خاص ایجاد ہے ۔ اس سے قبل اس قسم کی عقیدت مندی کے جذبات کا اظہار کسی شاعر کے یہاں نہیں ملتا ۔

اردو رباعیات ۔ صفحہ 369 )

جو روضہ شاہ کربلا تک پہنچے
بے شبہ و شک وہ مصطفی تک پہنچے
اللہ رے عز و شان زوّار حسین
پہنچے جو حسین تک وہ خدا تک پہنچے


اخلاقی رباعیات
Ikhlaqi rubaiyaat
ماہرین نے رباعی گوئی کا اصل میدان تو اخلاق و حکمت بتلایا ہے ۔ پند و موعظت کے مضامین کو شعری قالب میں ڈھالنا ان میں لطافت ، جاذبیت اور دل کشی پیدا کرنا آسان بات نہیں ۔ بزرگان سلف نے اس موضوع کو خوب برتا۔ اخلاق و کردار کی وضاحت کے لیے دینی اخلاق کی بڑی قدر و قیمت ہوگی اس میں آفاقی نوعیت بھی ملے گی انیس نے اس مرحلے کو بڑی عمدگی سے پورا کیا ہے۔ انہوں نے اخلاقی رباعیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس میں خود داری ، عزت نفس، وضع داری ، شرافت ، انکساری ، علوئے ہمت، قناعت ، دنیا کی بے ثباتی کے مضامین شامل ہیں۔ انیس کی رباعیاں ہماری زندگی کے لئے ایک لائحہ عمل دیتی ہے اور رہبری کا کام کرتی ہیں :


آنکھیں کھولیں مگر یہ پردہ نہ کھلا
سب ہم پہ کھلا پہ حال دنیا نہ کھلا
دریائے تفکر میں رہے برسوں غرق
مانند حباب یہ معما نہ کھلا

اندیشۂ باطل سحر و شام کیا
عقبی کا نہ کچھ ہائے سر انجام دیا
ناکام چلے کہاں سے افسوس انیس
کس کام کو ، یاں آئے تھے ، کیا کام کیا

فلسفیانہ رباعیات : 

Falsafiyana rubaiyaat
انیس نے جن رباعیوں میں دنیا اور دنیا کی زندگی کے بارے میں اپنے فلسفیانہ خیالات پیش کیے ہیں ، دنیائے فانی کی بابت انھوں نے مال و متاع کی اہمیت کو ثانوی بلکہ لا یعنی ٹہرایا ۔انیس نے چند رباعیات پیری یا ضعیفی کے بارے میں بھی کہی ہیں :

چل جلد اگر قصد سفر رکھتا ہے
تو کچھ بھی مآل کی، خبر رکھتا ہے
راحت دنیا میں ! کس نے پائی ہے انیس
جو سر رکھتا ہے وہ درد سر رکھتا ہے

اب زیر قدم لحد کا باب آ پہنچا
ہشیار ہو جلد، وقت خواب آ پہنچا
پیری کی بھی دو پہر ڈھلی آہ انیس
ہنگام غروب آفتاب آ پہنچا


ان رباعیوں سے انیس کی قادر الکلامی اور زور تخیل سے زیادہ مشاہدہ و مطالعہ کی گہرائی کا انداز ہوتا ہے ۔ میر انیس یہ تمام رباعیاں عموما مرثیے کے ساتھ یا مختلف اوقات میں کہتے تھے علی جواد زیدی نے سید محمد عباس کی روایت نقل کی ہے کہ میر انیسں :
" عموماً مرثیہ کی تصنیف سے فرصت پانے کی بعد اور بعض اوقات مجالس میں جاتے وقت سلام اور رباعیاں نظم کرتے تھے کبھی راہ میں بھی نظم کر لیتے اور مجلس میں جا کر پڑھ دیتے تھے، بعض رباعیاں مجلس میں پہنچ کر اور مجمع کو دیکھ کر نظم کی ہیں ۔“ (رباعیات انیس ص 54 )
بہر حال انیس کی ربائی گوئی نے اردو ادب کے سرمایہ میں ایک وقیع اضافہ کیا۔ انیس کی رباعیوں کے بارے میں ڈاکٹر سلام سند یلوی لکھتے ہیں :
" اگر میر ببر علی انیس مرثیہ نہ بھی کہتے تو ان کی رباعیاں ہی اس بلند مرتبہ کی تھی جو ان کی حیات ابدی کی ضامن بن جاتی ۔ در اصل میر انیس دور متوسط کے سب سے بڑے رباعی کو شاعر ہیں ۔ ان کی شیریں پر درد اور بلند آواز صدیوں تک اردو رباعی کی فضا میں گونجتی رہے گی ( اردو رباعیات ص 379)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے