Ad

ولی دکنی کی رباعیاں تشریح و خلاصہ

ولی دکنی کی رباعی تشریح و خلاصہ

 

ولی دکنی کی رباعیاں

Wali dakkani ki rubaiya


دک جام حقیقت ستی جو مست ہوا

ہر مستِ مجازی سوں زبردست ہوا

یہ باغ دوا نظر میں تنکے سوں بھی کم

اور عرش عظیم پگ تلے پست ہوا


یہ ہستی موہوم د سے مج ہوں سراب

پانی کے اُپر نقش ہے یہ مثل حباب

ایسے کے اُپر دل کوں نہ کر ہرگز بند

آپس کوں نہ کر خراب اے خانہ خراب


تج نین میں جی دامت محبت دیکھا

تج لب منیں دل جام مروت دیکھا

تج مکھ کے بھتر روز دسا مج روشن

تج زلف میں دل شام مشقت دیکھا


ولی دکنی کی رباعی کی تشریح

Wali dakkani ki rubai ki tashreeh khulasa

تج نین میں جی دامت محبت دیکھا

تج لب منیں دل جام مروت دیکھا

تج مکھ کے بھتر روز دسا مج روشن

تج زلف میں دل شام مشقت دیکھا


یہ رباعی ولی کے احساس جمال کی نشان دہی کرتی ہے ۔ آنکھ ، لب ، چہرہ اور زلف کی توصیف کرتے ہوئے ولی اپنے محبوب کو والہانہ انداز میں خراج پیش کرتے ہیں ۔ انھیں محبوب کی آنکھوں میں محبت کا جال بچھا نظر آتا ہے اور لبوں میں وہ جام مروت دیکھتے ہیں ۔ یہاں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لفظ مروت ادا کرتے ہوئے بوسے کی سی کیفیت کا اظہار ہوتا ہے ۔لب کا تعلق بوسے سے ہے اور ولی نے جام مروت کہہ کر معشوق کی عظمت بھی برقرار رکھی اور بوسے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا ۔ انھیں اپنے محبوب کے چہرے میں دن کی روشنی محسوس ہوتی ہے یعنی چہرے پر جو تیج ہے وہ روز روشن کی طرح نور بکھیر رہا ہے ۔ آخری مصرع میں انھوں نے زلف کی تعریف کی ہے ۔ زلف سیاہ ہوتی ہے اور شام رات اور دن یا سیاہ و سفید کے امتزاج کا نتیجہ ہے ۔ چہرے کی روشنی اور زلفوں کی سیاہی کے امتزاج سے شام کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔ یہ رباعی ولی کی جمال پرستی اور قدرت اظہار کی بھر پور عکاسی کرتی ہے ۔ اس رباعی میں ہندی الفاظ کا استعمال بھی بڑی خوبی سے کیا گیا ہے جیسے نین ، مکھ ، بھتر ۔

رباعیوں میں عام طور پر سے تصوف و اخلاق اور عشق حقیقی کے علاوہ بادہ نوشی اور عشق مجازی جیسے موضوعات کا احاطہ ہوتا ہے ۔ اگر فارسی رباعیوں کے سرمائے پر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی یہ دو عناصر ایک ساتھ متحرک نظر آتے ہیں ۔ خیام ہوں کہ حافظ ، سعدی ہوں یا ابولخیر ، ان سب کے ہاں تصوف اور زمینی محبوب کی توصیف یکساں اہمیت کی حامل ہے اور جن رباعیوں میں بہ ظاہر زمینی محبوب کا بیان ہے ان میں بھی تصوفانہ مزاج کے حامل قارئین اور ناقدین نے زمینی محبوب کے پردے میں رب کائنات یا رسول مقبول کے جمال کا مشاہدہ کیا ۔ ولی اس رباعی میں ایک حسن پرست عاشق نظر آتے ہیں ۔ یہاں محبوب کو اس طرح متشکل کیا گیا ہے کہ وہ گوشت پوست کا جیتا جاگتا محبوب محسوس ہوتا ہے ۔لیکن غور کیا جائے تو اس میں عشق حقیقی کا عنصر بھی نظر آتا۔

ولی دکنی کی رباعی گوئی

خلاصہ

Ugc net urdu syllabus

ولی سے قبل بھی دکن میں رباعیاں لکھی گئی ہیں ۔ وجہی، غواصی، محمد قلی قطب شاہ اور دوسرے کئی شاعروں نے رباعیاں لکھیں حضرت خواجہ بندہ نواز سے منسوب رباع بھی ملتی ہے۔ فاری رباعیوں کی طرح دکنی رباعیوں کے اہم موضوعات تصوف ، اخلاق ، عشق حقیقی اور عشق مجازی رہے ہیں ۔ ولی اس اعتبار سے اہم ہیں کہ وہ ایک عہد ساز شاعر ہیں ۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے شمالی ہند میں اردو شاعری کو اس طرح مقبول عام کیا کہ وہاں بھی اردو شاعری کے چرچے شروع ہو گئے ۔ شاہ سعد اللہ گلشن کی تحریک پر ولی نے فارسی شاعری میں پیش کیے جانے والے موضوعات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر جو تجربہ کیا اسے ہر ایک نے سراہا اور اردو غزل کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ۔ دیگر اصناف کے علاوہ ولی نے رباعی کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی اور تصوف ، اخلاق ، عشق حقیقی اور مجازی جیسے موضوعات پر مشتمل رباعیاں۔ لکھتے ہوئے ہندوستانی مزاج ، مقامی رسم و رواج ، معاشرتی و تہذیبی عناصر کو بھی بڑی چابک دستی اور خوش اسلوبی سے استمعال کیا ۔ تعداد کے اعتبار سے ان کی کل 26 رباعیاں ہیں لیکن فنی رچاؤ ، ندرت ، اظہار ، سلاست اور اثر انگیزی کی وجہ سے اردو رباعی کی تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے