حالی اور غالب
Hali or ghalib
حالی نے غالب کے کلام کو خود غالب سے سمجھنے کی کوشش کی۔ انہیں غالب سے ایک خاص لگاؤ پیدا ہوگیا تھا۔ انھیں غالب کے کلام میں ایک جہانِ رنگ و بو نظر آیا ، ندرتِ ادا ، جدت اور تخیل کی بلندی نظر آئی۔
غالب بڑے نکتہ شناس اور نکتہ سنج تھے۔ انھوں نے حالی کے اندر چھپے ہوئے شاعر کو دیکھ لیا۔ انھوں نے حالی کی حوصلہ افزائی اس طرح کی
" اگر چہ میں کسی کو فکر شعر کی صلاح نہیں دیا کرتا لیکن تمھاری نسبت میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو بے تو تم اپنی طبیعت پر سخت ظلم کروگے ( مقالات حالی۔حصہ اول صفحہ 266 )
یادگار غالب
غالب کے ان حوصلہ افزا کلمات نے حالی کے جذبہ شعر و سخن کو بیدار کر دیا۔ شعر گوئی کا جو فطری جذبہ حالی میں تھا اور نا مساعد حالات کی وجہ سے اب اظہار تک نہیں آیا تھا وہ اب اظہار کے لیے بے چین ہو گیا ۔ حالی کا غالب سے تعلق زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال رہا اور وہ بھی مسلسل نہیں رہا مگر اس قلیل عرصے میں غالب سے ایک خاص وابستگی رہی ۔ انھوں نے غالب سے بے حد استفادہ کیا۔ نیز ان کے ادبی کمالات کو سمجھنے ، پرکھنے اور تجزیہ کرنے کی سعی کی یادگار غالب لکھ کر حالی نے غالب کی حقیقی عظمت عام کرنے اور ان کے کلام کو عوام تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔
غالب کا انتقال 1867 میں ہوا۔ حالی اس وقت دلی میں موجود تھے ۔ ان کے لیے غالب کی جدائی ایک نا قابل فراموش اور نا قابل برداشت صدمہ تھا انھوں نے غالب کی وفات پر جو مرثیہ لکھا ہے اس کے ایک ایک مصرع سے ان کی عقیدت اور ان کا حزن و ملال جھلکتا ہے ۔ ہر مصرع سوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے ۔ حالی نے اپنے استاد کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔ مرثیہ غالب اگر زور بیان، سادگی، سلاست اور تاثیر کے اعتبار سے اردو کا بہترین شخصی مرثیہ ہے تو ’’یادگار غالب‘‘ غالب پرلکھی جانے والی سوانح عمریوں میں سب سے الگ منفرد اور ممتاز ہے ۔ یادگار غالب نہ صرف غالب کی یادگار ہے بلکہ حالی کی یادگار بھی ہے ۔ انھوں نے غالب کی شخصیت اور زندگی کی کامیاب تصویر کشی کی ہے اور ان کی شاعری اور نثر نگاری کا بصیرت افروز محاکمہ کیا ہے ۔
شیفتہ کے بعد حالی سرسید احمد خان سے بہت زیادہ متاثر ہوۓ ۔ سرسید نے ان کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ سرسید سے ان کی ملاقات شیفتہ کی وساطت سے ہوئی تھی ۔ قیام دلی کے دوران وہ سرسید سے قریب تر ہوتے گئے ۔ سرسید کی شخصیت اور ان کی تحریک سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنی بقیہ زندگی انھیں کے خیالات کی تبلیغ کے لیے وقف کردی ۔ ڈاکٹر سید عابد حسین رقم طراز ہیں:
" سرسید کی شخصیت اور ان کی تحریک کا حالی پر عجیب و غریب اثر پڑا ۔ انھیں وہ رہنما مل گیا ، وہ راہ عمل نظر آگئی، وہ مقصد حیات ہاتھ آ گیا جسے ان کا دل ڈھونڈتا تھا۔ انھوں نے دل میں ٹھان لی کہ اپنی زندگی اور اپنی شاعری کو اس کام میں صرف کر یں گے کہ مسلمانوں کے شعر و ادب کے مذاق کو سنواریں، ان کے دل میں جذبہ قومی کو بیدار کریں اور تعلیم و ترقی کا شوق پیدا کریں " ( انشائیات صفحہ 62 )
اس زمانے میں حالی کی جو ذہنی کیفیت تھی اس کا اظہار انھوں نے مسدس حالی کے دیباچے میں کیا ہے ۔ سرسید نے ایک پژمردہ قوم کی ڈھارس بندھانے کے لیے جس تحریک کا آغاز کیا تھا اور جو ماحول پیدا کیا تھا اور جو ماحول پیدا کیا تھا وہ مسدس کی تخلیق کا باعث بنا ۔ 1879 ء میں مسدس مد و جزر اسلام، حالی نے سرسید کی فرمائش پر لکھا ۔ مسدس حالی صرف حالی ہی کا نہیں بلکہ اردو ادب کا شاہ کار ہے ۔ حالی نے اس میں اسلام کی عظمت اور برگزیدگی کا احساس دلایا ہے ۔ حالی نے جو پس منظر پیش کیا ہے وہ بہت تاریک ہے لیکن اس میں روشنی کی کرنیں بھی ہیں ۔
بہ قول ابواللیث صدیقی:
" مسدس حالی سے بلاشبہ اردو شاعری کی تاریخ میں قومی شاعری کی تحریک کو بڑی تقویت پہنچی۔ اس اعتبار سے حالی کو اردو میں قومی شاعری کا نقیب قرار دینا غلط ہوگا‘‘ ۔ (آج کا اردو ادب صفحہ 42)
سرسید اس کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ سرسید کے زیر اثر آنے کے بعد حالی کو وہ منزل ہاتھ آئی جس کی انھیں تلاش تھی ۔ سرسید تحریک میں ایک نصب العین ہاتھ آ گیا ۔ ان کی کاوشیں تعمیری صورت اختیار گئیں ۔ ان میں قومی شعور پیدا ہوا۔ انھوں نے شاعری کو قومی اصلاح کا بہترین ذریعہ سمجھا۔ حالی نے سرسید کی شخصیت، ان کے بلند مقاصد اور ان مضبوط ارادوں کا گہرا اثر قبول کیا اور اپنی باقی 38 سالہ زندگی کا ہر سانس اس مقصد لیے وقف کر دیا کہ اپنی خواب غفلت میں سرشار قوم کو جگانا اور اسے ترقی کے راستے پر چلنا سکھانا ہے۔... اس کے بگڑے مذاق کو سنوارنا اور گرے ہوئے اخلاق کو پھر سے بلند کرنا ہے ۔‘‘ ( یادگار حالی صفحہ 41)
ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی وہ برابر سرسید کا ہاتھ بٹاتے رہے ، محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے جلسوں میں شرکت کر تے رہے۔ علی گڑھ کالج کی امداد کے سلسلے میں سرسید کے ساتھ 23 اگست 1891ء کو حیدرآباد گئے تقریبا دو مہینے حیدرآباد میں قیام کیا۔
شمس العلما کا خطاب
خطاب
حالی طبعا گوشہ نشین اور تنہائی پسند تھے۔ وہ نام و نمود سے کوسوں دور تھے ۔ 1904ء میں حکومت ہند نے بغیر کسی تحریک یا سفارش کے انھیں تعلیمی و ادبی خدمات صلے میں شمس العلماء کا خطاب عطا کیا۔ خطاب ملنے پر مولانا شبلی ایک مختصر اور جامع خط لکھا اور اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔
0 تبصرے