Ugc net urdu syllabus 2022
امجد حیدرآبادی کے حالات زندگی
Amjad Hyderabadi ke halaat e zindagi
دکن میں ایسی کئی نامور شخصیتوں نے جنم لیا جنھوں نے علم و ادب کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا ۔ دکن کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر محمد قلی قطب شاہ اسی مٹی کا پروردہ تھا۔ یہیں وجہی اور نصر تی جیسے بلند پایہ شاعر پیدا ہوۓ ۔ دکن ہی کے ایک شاعر ولی نے شمالی ہند کے شاعروں کو اردو شاعری کے لطف سے واقف کرایا اور اس طرح وہ زبان جو دہلی کے ثقہ حلقوں میں لچر اور پوچ سمجھی جاتی تھی ، اب شعری اظہار کے لیے استعمال کی جانے لگی ۔
سلاطین آصفیہ کے عہد میں اردو زبان و ادب نے بے حد ترقی کی ۔ ناصر الدولہ کے زمانے میں شمالی ہند سے کئی بڑے شاعر جیسے شاہ نصیر دہلوی ، ایما ، صفا وغیرہ حیدرآباد منتقل ہو گئے ۔ افضل الدولہ کے عہد میں مختلف علوم وفنون کے اردو میں ترجمے کیے گئے ۔ ان کے بعد نواب میر محبوب علی خان تخت نشین ہوۓ ۔ ان کے دربار سے داغ دہلوی جلیل مانک پوری ، امیر مینائی ، حبیب کنتوری ، نظم طباطبائی اور ظہیر دہلوی جیسے نامور شعرا وابستہ رہے ۔ ان کے علاوہ عبدالحلیم شرر ، رتن ناتھ سرشار ، محسن الملک ، مولوی چراغ علی وغیرہ بھی ریاست حیدرآباد میں علم وادب کے چراغ روشن کرتے رہے ۔ محبوب علی خان کے دور میں اردو کو سرکاری زبان کا رتبہ ملا اور 1884ء میں سرکاری احکامات کی رو سے تمام سرکاری دفاتر کا کام اردو میں انجام پانے لگا ۔ یہی وہ دور ہے
جب امجد حیدر آبادی نے اس دنیاۓ آب وگل میں آنکھیں کھولیں ۔
امجد حیدرآبادی حیات و شخصیت
امجد حیدر آبادی کا پوار نام ابوالاعظم سید امجد حسین تھا ۔ ان کے والد صوفی سید رحیم علی بن سید کریم حسین ایک متقی اور پرہیزگار بزرگ تھے۔ انہیں بیس بچے پیدا ہوئے تھے لیکن کوئی نہ بچ سکا ۔ اکیسویں اولاد امجد تھے جو 7 رجب سن 1303 ھ بروز دو شنبہ مطابق 1886 ء حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ جب امجد چالیس دن کے ہوئے تو ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور امجد کی پرورش ان کی والدہ صوفیہ بیگم نے کی ۔ وہ بھی ایک نیک ، مذہبی اور پرہیز گار خاتون تھیں اور آپ نے بچوں کو زندگی میں آگے بڑھنے کا حوالہ دیتی تھیں ۔ چنانچہ ایک بار انھوں نے امجد سے کہا تھا کہ " اگر دنیا میں جینا ہے تو کچھ ہو کر جیو ورنہ مرجاؤ "
Amjad Hyderabadi biography
ایک اور مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ایک امیر آدمی پالکی میں سوار امجد کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا ۔ کہاروں کے ساتھ ایک کارندہ بھی پالکی تھامے دوڑ رہا تھا ۔ امجد کی والدہ نے امجد کو یہ منظر دکھا کر پوچھا ، تم کیا بننا پسند کروگے ؟ امجد نے جواب دیا " پالکی سوار " ۔ والدہ نے کہا " ایسی زندگی اس وقت حاصل ہوسکتی ہے جب تم علم حاصل کرو، ورنہ تمہیں بھی پالکی کے ساتھ دوڑنا ہوگا " ۔ والدہ کی ہی تربیت کا نتیجہ تھا کہ امجد نے علم حاصل کرنے کے لیے جی جان سے محنت کی ۔
عام رواج کے مطابق امجد کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی ۔ پھر انہوں نے حیدر آباد کی مشہور درس گاہ جامعہ نظامیہ میں چھ سال تک تعلیم پائی ۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان کامیاب کیا ۔
اٹھارہ برس کی عمر میں ان کی شادی شیخ میراں کی لڑکی محبوب النساء بیگم سے ہوئی جن کے بطن سے ایک لڑکی اعظم النساء تولد ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ امجد ابوالاعظم کہلائے جانے لگے۔
شادی کے دو سال بعد امجد بنگلور چلے گئے اور وہاں پیشہ تدریسی سے وابستہ ہوئے لیکن جلد ہی حیدرآباد واپس آگئے اور مدرسۂ دارالعلوم استاد مقرر ہوگئے۔ مدرسۂ دارالعلوم میں چند برس تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد وہ صدر محاسبی ( اکاونٹنٹ جنرل ) کے دفتر میں ملازم ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے مددگار صدر محاسب ( ڈپٹی اکاونٹنٹ جنرل ) کے عہدے پر پہنچ کر پچپن برس کی عمر میں وظیفے پر سبک دوش ہوئے۔
اسی دوران ایک بھیانک واقعہ رونما ہوا جس نے ان کی زندگی کو رنج و الم سے بھر دیا 1908 ء میں حیدرآباد کی موسی ندی میں زبردست طغیانی آئی جو اتنی تباہی کن تھی کہ شہر کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی نذر ہوگیا ۔ امجد ندی کے قرب و جوار ہی میں رہتے تھے ۔ ان کا مکان بھی اس کی زد میں آگیا نہ صرف سارا مال و اسباب تباہی ہوگیا بلکہ ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی والدہ ، بیوی اور چار سالہ بچی اعظم النساء طغیانی کی نذر ہوگئی۔ اور وہ انہیں بچا نہ سکیں ۔ اس حادثے نے ان کے ذہن پر بہت بڑا اثر ڈالا ۔ کئی سال تک وہ تجرد کی زندگی بسر کرتے رہے ۔ سیلاب کی تباہی کاریوں اور اپنے بھرے پرے خاندان کی بربادی کا دردناک حال انھوں نے ' جمال امجد ' کے عنوان سے اپنی خودنوشت سوانح میں لکھا ہے اس سیلاب کے بارے میں ان کی ایک رباعی ہے :
رباعیات امجد حیدرآبادی
سیلاب میں جسم زار گویا خس تھا
غرقاب محیطِ غم کس و نا کس تھا
اتنے دریا میں بھی نہ ڈوبا امجد
غیرت والے کو ایک چلّو بس تھا
ایک اور رباعی میں وہ اپنے دل کا حال یوں بیان کرتے ہیں :
کس وقت دل غم زدہ مغموم نہیں
رونے دھونے کی کس گھڑی دھوم نہیں
قبر مادر تو خیر ! بن ہی نہ سکی
لیکن گور پدر بھی معلوم نہیں
Rubaiyat e Amjad hyderabadi
امجد نے علامہ سیدنا دارالدین سے فلسفہ و منطق پڑھیں تھی اور علامہ انھیں بہت چاہتے تھے۔ امجد کے ذہنی کرب کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی بیٹی جمال سلمٰی کو امجد کے عقد میں دے دیا جس کے بعد امجد کی زندگی میں ایک ٹہراؤ آیا ۔ 1928 ھ میں امجد نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کرنے گئے ۔ " حج امجد " کے عنوان سے انھوں نے ایک سفر نامہ بھی لکھا ۔ طواف کعبہ کے دوران انھوں نے ایک رباعی کہی۔ وہ رباعی یہ ہے :
رستہ ترا سر سے طے کیا ہے ہم نے
سب کچھ تری رہ میں دے دیا ہے ہم نے
مل لیں گے کبھی تجھ سے بھی انشاء اللہ
گھر تو تیرا دیکھ ہی لیا ہے ہم نے
حج سے واپسی کے ایک سال بعد ہی ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا ۔ 1930 ء میں امجد نے تیسری شادی سید ابراہیم حسینی کی دختر قمر النساء بیگم سے کی جو امجد کی وفات کے بعد بھی بقید حیات رہیں ۔
مختصر سی علالت کے بعد امجد نے 29 مارچ 1961ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ درسگاہ شاہ خاموش کے احاطے میں دوسری بیوی اہلیہ جمال سلمی کے پہلو میں تدفین ہوئی۔
UGC NET urdu syllabus
امجد حیدرآبادی کا مزاج
والدہ کہ تربیت نے امجد پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ اس لئے کچھ کر گزر نے کی تمنا ان میں ہمیشہ کار فرما رہی ۔ متانت اور سنجیدگی ان کی طبیعت کا اہم جزو تھے۔ جامعہ نظامیہ میں ان کی مزید ذہنی تربیت ہوئی ۔ امجد صوفیانہ مزاج کے حامل تھے ۔ قناعت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ چاہتے تو نہایت عیش و آرام کی زندگی بسر کر سکتے تھے لیکن انھوں نے دنیاوی دکھاوے اور عیش و عشرت سے ہمیشہ گریز کیا اور زندگی انتہائی سادگی سے گزاری ۔ لباس اور غذا میں بھی انہوں نے ہمیشہ سادگی برتی اور اعتدال سے کام لیا ۔ رہن سہن میں انہوں نے کبھی تصنع سے کام نہیں لیا ۔ وہ بے حد خود دار تھے لیکن منکسر المزاجی ان کا خاص وصف تھا ۔ امجد نے خود نمائی اور دنیوی شان و شوکت سے گریز کیا اور ہمیشہ عبادت میں زندگی بسر کی ۔ انہوں نے کسی کا احسان لینا پسند نہیں کیا بلکہ جہاں تک ممکن ہوسکا دوسروں کی مدد کی ۔
0 تبصرے