جوش ملیح آبادی کی شاعری میں صوفیانہ رنگ
جوش صوفی نہیں تھے۔ انہوں نے فارسی اور اردو شاعری کے ذریعے تصوف کے بنیادی فلسفوں کو سمجھا تھا۔ ان متصوفانہ مضامین میں ایک مضمون ہے انسانی عظمت کا احساس۔ یہ مضمون جوش کے مزاج سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی نظموں اور رباعیوں میں انسانی عظمت کے مضامین کو مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ اس مضمون پر ان کی دو رباعیاں ملاحظہ ہوں :
جوش ملیح آبادی کی رباعیاں
پہلی رباعی میں جوش کہتے ہیں کہ میں محض ایک انسان نہیں ہوں بلک بلکہ پوری کائنات ہوں۔
کہنے کو تو ایک بات، کہتا ہوں میں
پر فلسفہ حیات کہتا ہوں میں
!جب میری زباں سے ' میں ' نکلتا ہے ندیم
اس پردے میں کائنات کہتا ہوں میں
اس موضوع پر ایک اور رباعی ہے:
جب فکر نے، راہ پر لگایا مجھ کو
حکمت نے جب آئینہ دکھایا مجھ کو
ذرات سے لے کے تا بہ انجم، واللہ
جز اپنے، کوئی نظر نہ آیا مجھ کو
تصوف کی رباعی
تصوف کا یہ خاص فلسفہ ہے کہ کائنات کی ہر شے میں ذات خداوندی جلوہ گر ہے۔ جوش اس مضمون کو کیسے خوب صورت انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ہر نطق پر ایک گفتگو جاری ہے
ہر خاک پہ ایک آب جو جاری ہے
حیواں و نباتات و جماد و انساں
ہر نبض میں، ایک ہی لہو جاری ہے
اردو شاعری میں دیر و حرم کے مضامین بہت باندھے گئے ہیں۔جوش نے بھی ان مضامین کو بہت فلسفیانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ ایک رباعی میں جوش کہتے ہیں کہ کفر و ایماں ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیزیں ہیں دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ میں اگر چاہوں تو کفر و ایماں کے جھگڑے کو ختم کر دوں ان دونوں میں جو تضاد ہے اسے لوگوں پر عیاں کردوں میرا دل دیر و حرم دونوں کی حقیقت سے واقف ہے۔ یعنی حقیقت خدا کی ذات ہے اور دیر و حرم میں کچھ حقیقت نہیں ہے۔ اس موضوع پر ان کی رباعی ہے :
دیر و حرم شاعری
موقوف نزاعِ کفر و ایماں کردوں
اضداد کو راستہ نمایاں کردوں
اپنے دل سے اگر اٹھادوں میں نقاب
کیا دیر ہے، خود حرم کو ویراں کردوں
جوش دیر و حرم ، شیخ و برہمن اور ہندو مسلم میں مذاہب کی تقسیم کے سخت خلاف ہیں۔ کہتے ہیں :
ہر بات میں تیغ خوں چکاں ہے یارب
ہر پاؤں میں زنجیر گراں ہے یارب
مذہب کی برادری سے ، دل تنگ ہوں میں
انساں کی برادری کہاں ہے یارب
جوش کی صوفیانہ شاعری
جوش نے اپنی شاعری میں بارہا خدا سے گستاخانہ انداز میں گفتگو کی ہے۔ کہیں کہیں یہ گستاخی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جوش خدا کے وجود ہی سے منکر ہیں۔ پاکستان میں جوش کے بہت سے ایسے دشمن تھے جو کہتے تھے کہ جوش کافر ہیں اور خدا کو نہیں مانتے ، حالانکہ ان کے کلام میں ایسے اشعار اور رباعیاں خاصی تعداد میں ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دل سے خدا کے وجود کے قائل تھے۔ ہاں خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے ان کے لہجے میں تھوڑی سی شوخی ضرور ہوتی تھی اور پھر انہوں نے کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں کی بلکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دل و جان سے احترام کرتے تھے جس کا ثبوت ان کے مرثیے اور وہ اشعار ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دل سے خدا کے قائل ہیں۔
اس سلسلے میں ان کی چند رباعیاں ملاحظہ ہوں:
یہ نار جہنم یہ سزا کچھ بھی نہیں
یہ دغدعۂ روز جزا ، کچھ بھی نہیں
اللہ کو قہار بتانے والو !
اللہ تو رحمت کے سوا کچھ بھی نہیں
کی اللہ ہو اس انداز میں رحمت کہنے والا خدا سے منکر ہو سکتا ہے۔
جوش کہتے ہیں کہ اگر دنیا کے بلند و پست پر نظر رکھو اور یہ دیکھو کہ پوری کائنات کا کیسا مکمل انتظام ہے تو تمھیں ماننا پڑے گا کہ اس بند و بست کے پیچھے کوئی ہے، اور وہ کوئی صرف خدا کی ذات ہے ۔ اس موضوع پر جوش کی رباعی ملاحظہ ہو۔
اس دہر کا بند و بست دیکھو گے اگر
شان فتح و شکست دیکھو گے اگر
ہو جائے گی سطح ذہن خود سے ہموار
دنیا کے بلند و پست دیکھو گے اگر
UGC NET URDU SYLLABUS 2022
جوش کا عقیدہ ہے کہ کوئی شے ایسی نہیں ہے جس میں خیر کا جو ہر نہ ہو اور کوئی خار ایسا نہیں جس میں گل تر پوشیدہ نہ ہو یعنی ہر چیز میں خدا کا جلوہ ہے۔ اس موضوع پر جوش کی ایک رباعی ہے :
ہر شر میں نہاں خیر کا جوہر دیکھا
ہر خار کے پردے میں گل تر دیکھا
جب چاک کیا ذرۂ تاریک کا دل
خورشید ازل کو جلوہ گستر دیکھا
0 تبصرے